وہ مجرم تھا یا بے قصور، اس کی ہتھکڑی کھول دو


آج سے 19 سال پہلے جب نیب نامی ادارہ وجود میں آیا تو ہمارے، تعلقاتِ عامہ کے استاد، ڈاکٹر اے آر خالد نے نیب کے لیے تعلقاتِ عامہ کا منصوبہ بنانے کا کام دیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس اسائنمنٹ میں میرے سب سے زیادہ نمبر تھے۔

گو اس وقت نیب کو کسی مائی کے لال کی نظروں میں اچھا بننے کی چنداں ضرورت نہ تھی لیکن تاڑنے والے تاڑ گئے تھے کہ آنے والے وقت میں معاملات کیا شکل اختیار کر جائیں گے۔

نیب کے قیام کے چاروں مقاصد نہایت ارفع ہیں۔ یعنی لوگوں میں بدعنوانی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا، بدعنوانی کی روک تھام کرنا، اس پہ نظر رکھنا اور بدعنوان عناصر سے نمٹنا۔ اگر میں کچھ بھول رہی ہوں تو معاف کیجیے گا، زمانہ بھی تو کتنا گزر گیا۔ آگاہی پیدا کرنے والا کام تو نیب با حسن و خوبی سر انجام دے رہا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے اچانک ایک دن، فون پہ بار بار پیغامات آنے شروع ہوئے۔ چونکہ فون پہ سوائے گھر والوں کے کبھی کسی کے پیغام نہ آئے اور وہ بھی اتنے تواتر سے تو ایک بار تو پہلے دل اچھل کر حلق میں آیا اور پھر یہ ہی دل بلیوں اچھلنے لگا، کس قیامت کے یہ نامے میرے نام آتے ہیں۔

پیغامات کھولتے ہی دل ڈوب گیا۔ نیب کی طرف سے ایک ہی پیغام 18 بار بھیجا گیا تھا،’سے نو ٹو کرپشن’۔

اب زندگی بھر کی بد عنوانیوں پہ نظر ڈالی تو سوا اس کے کچھ نظر نہ آیا کہ آلو کے ساتھ دھنیا مفت مانگنے کی بد عنوانی کی ہے۔ پھر بھی آئندہ کے لیے خود کو اس بد عنوانی پہ سرزنش کی اور سوچا کہ جن لوگوں نے بڑے بڑے گھاؤ گھپ کیے ہیں، وہ آج یہ پیغام ملنے پہ اپنی نظروں میں کتنا گر گئے ہوں گے؟ سچ ہے انسان پہاڑ سے گر کے اٹھ سکتا ہے، نظر سے گر کے نہیں اور وہ بھی اپنی ہی نظروں سے گرنا، یعنی، حد ہی ہوگئی۔

نیب کے اس پیغام سے اس کا ایک مقصد پورا ہوا تو باقی تینوں مقاصد کی طرف قدم بڑھایا گیا۔ خیر وہ قدم تو کافی عرصے سے بڑھ رہے تھے۔ اب ذرا بے باکانہ بڑھنے لگے۔ ذرا جس کی خبر ملی کہ بدعنوان ہے وہیں دھر لیا، لاکھ چلاتا رہے کہ میں بے قصور ہوں، نیب نہیں سنتا۔ بھیا یہاں تو ہر چور جرم ثابت ہونے تک سادھو ہی ہوتا ہے۔

نیب کا یہ اصول بڑا پیارا ہے کہ پہلے مجرم کو پکڑا جاتا ہے، پھر اس کا جرم تلاش کیا جاتا ہے اور آخر اسے عبرت کا نمونہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرح بد عنوانی کی روک تھام ہو رہی ہے، آپ دیکھیے پچھلے 19 سال میں بدعنوانی کس قدر کم ہو گئی ہے۔

کچھ عاقبت نااندیش لوگوں کو نیب سے طرح طرح کے شکوے ہیں کہ یہ ادارہ سیاسی انتقام کا آلہ ہے، فلاں ہے، ڈھمکاں ہے۔

بات یہ ہے کہ جب تک بدعنوان حکومت میں ہوتے ہیں تو پکڑائی ہی کہاں دیتے ہیں؟ اس پہ آپ کہیں گے کہ تو پھر ادارہ بدعنوانی کا سدِ باب کیسے کر رہا ہے؟

بد عنوانی تو کی ہی اقتدار میں رہ کر جاتی ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ بھولے بادشاہ ہیں۔ ایک شخص کو صرف جرم کی نیت رکھنے پہ کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے؟ اس لیے نیب پہلے خاموشی سے ان لوگوں کے دورِ اقتدار میں انھیں بد عنوانی کرتے دیکھتا رہتا ہے اور جوں ہی اقتدار سے نکلے، دھر لیا اور ایسا دھوبی پاٹ دیا کہ رہے نام سائیں کا۔

نیب نے اپنے 19 سالہ دور میں چار بلین ڈالر سے بھی زیادہ کی لوٹی ہوئی قومی دولت برآمد کرائی ہے۔ اگر یہ دولت لٹنے سے پہلے ہی ہاہاکار مچا دی جاتی تو یہ برآمد کیسے ہوتی؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پہلے تو سب کرپشن، کرپشن کا شور مچاتے ہیں اور اب جب کہ کرپشن کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے تو آ پ اس کے خلاف چّلا رہے ہیں۔

نیب جو کر رہا ہے، وہ قانون کے دائرے میں ہے۔ قانون جو اندھا ہوتا ہے اور جس کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔ قانون جسے انسانوں ہی نے بنایا اور انسان ہی اسے بدلنے پہ بھی قادر ہیں۔ قانون، جسے دل جلے ایک ایسا جال بھی کہتے ہیں جسے بڑی مچھلیاں توڑ کے نکل جاتی ہیں اور چھوٹی مچھلیاں اس میں پھنس جاتی ہیں۔

ہمیں یہ سب تسلیم ہے لیکن، ایک شخص نیب کی حراست میں مر گیا۔ وہ مجرم تھا یا بے قصور، اس کی ہتھکڑی کھول دو۔

ہم نے زندہ استادوں کو تو پابجولاں چلتے ہوئے دیکھ لیا تھا، مرے ہوئے استادوں کو زنجیروں میں دیکھنے کی ہمت ابھی تک پیدا نہیں ہوئی۔ کاش نیب والوں کی طرح میں بھی 18 پیغام اکٹھے بھیج سکتی،’لیٹ دا ڈیڈ ریسٹ ان پیس، پلیز ان کف’۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).