رومیلہ تھاپر اور قصہ سومنات کا


ہم سب ویب سایٹ پر ایک صاحبِ علم کا مضمون شائع ہوا ہے “محمود غزنوی اور سومنات: قصہ یا افسانہ” کے عنوان سے۔  فاضل مصنف نے یہ مضمون فیس بُک پر ھندوستانی مورخ رومیلہ تھاپر صاحبہ کی مشہور کتاب سومنات کے متعلق ایک پوسٹ پڑھ کے اس کے جواب میں لکھا ہے اور رومیلہ تھاپر کے  تجزیے کے رد میں ابن خلدون کی تاریخ العبر سے کچھ حوالے بھی دیے ہیں۔ موصوف فرماتے ہیں : رومیلا تھاپر کی کتاب تو میں نے نہیں پڑھی مگر ابن خلدون کے اس بیان کے بعد اس دعوے کو تسلیم کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے کہ یہ قصہ محض انگریزوں کا گھڑا ہوا ہے۔ کیونکہ ہم جیسے  کم علموں کے نزدیک کسی علمی تحقیقی کتاب کے مرکزی خیال کا جواب دینے کے لیے اس کے بارے میں کچھ جاننا ضروری ہے ( بعض نا معقول توکسی کتاب کو رد کرنے سے پہلے اسے پڑھنا بھی ضروری  گردانتے ہیں) اس لیے یہاں کاوش ہے کہ مصنفہ اور ان کی کتاب کا تعارف ہو جائے اور اس کا مرکزی خیال مختصر الفاظ میں بیان کر دیا جائے۔

پروفیسر رومیلہ تھاپر جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں تاریخ کی استاد ہیں اور انہیں عصرِ حاضر میں جنوبی ایشا کے بہترین تاریخ دانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی متعدد تصنیفات ھندوستان کی قدیم تاریخ کے متعلق ہیں اور ان کا خاص موضوع ہندو مت کا تاریخی ارتقا ہے کہ یہ مذھب کس طرح مختلف تاریخی ادوار میں مختلف معاشرتی عوامل کے زیرِ اثر پروان چڑھا اور نا صرف اس عقیدے کی تبدیلیاں آتی رہیں بلکہ اس کے پیروکاروں کے نزدیک اس کا مفہوم بدلتا گیا۔

کتاب سومنات ڈاکٹر تھاپر کی کئی برس  پر محیط تحقیق کا نتیجہ ہے اور جہاں بین الاقوامی علمی حلقوں میں اس کی بے حد پزیرائی ہوئی وہاں انہیں اس پر کٹر ہندو قوم پرستوں کی لعن طعن کا سامنا بھی کرنا پڑا (سرحد پار بھی اسلامی جمیعت اور اوریا مقبول جان صاحب کے ہم منصب اور ہم صفیر موجود ہیں)۔ کتاب کی بنیادی تحقیق کے نتایج کچھ یوں ہیں:

۔ فارسی تواریخ میں اس حملے کے بارہ میں بہت سے تضاد پائے جاتے ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ سلطان محمود نے سومنات میں ایک بُت توڑا کہ جس کے بطن سے بہت سے قیمتی جواہر برآمد ہوئے۔ کچھ کا بیان  ہے کہ یہ ایک شیوا لنگم تھا کہ جسے توڑا گیا اور کچھ کے مطابق یہ عربی دیوی منات کا بُت تھا جسے فتح مکہ کے وقت خانہ کعبہ سے نکال کر ھندوستان لایا گیا تھا اور یوں سلطان محمود نے لات، منات اور العزی کی پرسستش کا بالآخر خاتمہ کیا۔ یعنی کہ سلطان کی سیاسی پوزیشن کی حقانیت ثابت کی جا رہی تھی۔

ان تضادات کو پانے کے بعد رومیلہ تھاپر صاحبہ نے سنسکرت ذرایع کا مطالعہ کیا کہ جس طرف پہلے کسی تاریخ دان کی نظر نہیں گئی تھی اور سومنات اور اس کے وقف کے متعلق بہت سے ہندو اور جین مصادر گیارہیوں سے پندرہیوں صدی تک کے،  سنسکرت زبان میں موجود ہیں۔ ان میں سے اکثر میں محمود غزنوی کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ بلکہ جب مندر کی تعمیرِ نو کا ذکر ہے اس تجدید کے دو اسباب بیان کیے گئے تھے، ایک یہ کہ وزاء جن کے ذمہ مندر کی دیکھ بھال تھی وہ پیسہ خورد برد کرتے تھے اور ثانیاً یہ کہ کیونکہ مندر ساحل پر واقع تھا اس لیے نمکین پانی کے چھینٹوں کے اثر سے اس کی عمارت خستہ ہو گئی تھی۔

۔ اس کے بعد سوال یہ اٹھا کہ پھر یہ انگریز نو آبادیاتی دور میں سومنات کا مسئلہ کیسے دوبارہ اٹھا اور یہ مندر کی تباہی کی داستان ہندو نشاۃ ثانیہ کی تحریک کی ایک مرکزی رکن کس طرح بن گئی؟ تو پہلی انگریز افغان جنگ کے دوران وایسرائے ایلنبورو نے ہندو عوام کی ہمدردیاں جیتنے کے لیے انگریز فوج کو حکم دیا کہ وہ غزنی سے سومنات مندر کے وہ دروازے واپس لائیں کہ جنہیں محمود لوٹ کر لے گیا تھا۔ غزنی میں سلطان محمود کے مقبرہ پر لگے دروازے اتار لیے گئے اور انہیں انگریز فوج ھندوستان لے آئی۔ جب ان کا ھندوستان مین معاینہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ دروازے ھندوستان کے تھے ہی نہیں بلکہ ملک مصر کے درختوں کی لکڑی سے تعمیر شدہ تھے اور پر جو کام تھا وہ بھی مصری تھا۔ نتیجتاً ایلنبورو کے سیاسی دشمنوں نے (جن میں لارڈ میکالے بھی شامل تھا) برطانوی دارالعوام میں اس کے خلاف ایک مہم شروع کی کہ یہ کیا تماشہ بنایا گیا ہے اور ایسی حرکتوں سے مسلمانوں کی بھی دشمنی مول لی جا ہی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایلنبورو  نے یہ حرکت مہاراجہ رنجیت سنگھ کو خوش کرنے کے لیے کی تھی اور اسے یہ بھی علم نہیں تھا کہ سکھوں کے نزدیک سومنات مقدس مندر نہیں تھا۔ تو یہ پہلا موقع تھا کہ برطانوی پارلیمنٹ میں لارڈ ایلنبورو کے حامیوں نے سومنات حملے کے نتیجہ میں ھندو ٹراما (ہندو صدمے) کی اصطلاح استمعال کی۔ جب دارالعوام کی اس بحث کی کہانی ھندوستان پہنچی تو کے ایم منشی جو کہ ہندو احیا تحریک کا ایک سرکردہ رکن تھا، نے اس کو اپنا لیا اور اس پر بہت سے پمفلٹ لکھے اور اس طرح یہ ھندوستان کی تحریک میں ایک فرقہ وارانہ واقعہ بن گیا۔ اس کے بعد آج تک یہ ھندوستانی فرقہ وارانہ سیاست میں ایک اہم موضوع رہا ہے اور بابری مسجد کے انہدام پر بھی سومنات کا بدلہ لینے کا اعلان کیا گیا تھا۔

تو جناب یہ ہے رومیلہ تھاپر صاحبہ کی کتاب کا مختصر خلاصہ جسے پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ اسے رد کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کتاب اور اس کے ماخذ پر بہت سے علمی بحثیں دانشگاہوں میں ہو چکی ہیں لیکن ان میں جو قدرِ مشترک ہے وہ یہ کہ سب نے کتاب کو پڑھنے اور اس کے مآخذ کھنگالنے کے بعد ہی اس پر علمی تنقید کی ہے ۔ اور استدعا یہ ہے کسی کتاب کو پڑھے بغیر محض اپنے عقیدے کی بنا پر رد کر دینا علم دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments