عشق پہلوانی



پہلوان جب اپنی پہلوانی کا ذکر کرتا تو اتنے آنسو بہاتا کہ باقاعدہ کیچڑ ہو جاتا اسے بہلا پھسلا کر چپ کرانا پڑتا بلکہ ایک بار تو اسے بہلانے کے لئے سوٹا لگوانے جہاز گراؤنڈ جمرود لے جانا پڑا جدھر ولائتی ٹھرے ٹن پیک میں دیکھ کر ہی وہ دھمال ڈالنے لگ گیا۔

پہلوان کی فیملی شاید کباڑی یا سکریپ کا کام کرتی تھی لیکن اس کا اصرار تھا کہ ان کا لوہے کا کاروبار تھا بلکہ دو چار بھٹیاں بھی تھیں جنہیں وہ فاؤنڈری بتاتا تھا۔ اس کے بقول اس کے ابا جی کی بڑی عزت تھی شہر میں۔ سارے وڈے افسر رات کو انہی کے ڈیرے پر محفل جماتے تھے۔

محفل کا پوچھنے پر پہلوان بولا تھا او یاڑ توں وی ملنگ ایں۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ اس سے ہر وہ لفظ زیادہ بلواؤں جس میں ر آتی ہے کہ وہ اس ر کو ڑ بولتا تھا۔ خیر پہلوان نے بتایا کہ شہر کی ساری انتظامیہ انہی کے ڈیرے پر بہہ کے پینے پلانے کا شغل کرتی تھی اور وہیں مجرا دیکھ کر ویلیں دیتی تھی۔

پہلوان کا نام اس کی حرکتیں کچھ بھی پہلوانوں والی نہ تھیں پہلوانی کا نام لیتے تو وہ آنسو لمکانے لگ جاتا فیملی کے قصے سناتا تو وہ رسہ گیر لگتا۔ اک دن پہلوان بونگیاں مار رہا تھا تو میں نے اس کو کہہ دیا کہ پہلوانی سے پتہ نہیں کون پہلوان گھلتا رہا ہے پہلوان جی تسی کسی پاسے سے پہلوان نہیں لگتے۔

پہلوان اگ بگولا ہو گیا اس کا ملازم ہمارے پاس سے فوری فرار ہو گیا۔ پہلوان میری گردن دبانے کو اٹھا تھا پھر رک گیا کہ شاید یہ سوچ کر کہ میں اس کا میزبان ہوں۔ اک ٹھنڈی اور دو گرم آہیں بھر کے بولا پہلوانی میری معشوق تھی۔ میں نے کہا اچھا کشتی سے واقعی عشق تھا۔ پہلوان بولا اوئے بے شرما جاہل انسان پہلوانی میری معشوق خاتون تھی۔

پہلوان جی نے بیان جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ میں تو باکسر رہا ہوں تعلق میرا پہلوانوں کے ہی خاندان سے ہے۔ جو لڑکی پسند آئی اس کا نام پیار سے پہلوانی رکھ دیا تھا۔ اب وہ میری چاچی ہے۔ لاحول پڑھنے ہی لگا تھا تو پہلوان بولا کہ چاچا ہمارا منشی ہوتا تھا۔ میں نے یہی سوچا کہ منشی کو بھائی بنایا ہوا ہو گا اس کے ابا نے کہ پہلوان بولا ہمارے دادا نے سٹھ ستر ویاہ کیے تھے یہ چاچا ان دادیوں سے بقایا بچا تھا جو ہمارے ابا جی گن کر تصدیق کر سکے تھے۔

دادے کو شاباشی دینے کو منہ کھولا لیکن پہلوان کا بیان جاری تھا کہ اس کا یہ بقایا بچا چاچا منشی ہمارے پہلوان کا مشیر عشق تھا پہلوان جب پہلوانی سے بات کرنے جاتا تو چاچا ہی ساری سیٹنگ کرتا تھا۔ بلکہ شروع شروع میں جب پہلوانی میرے ساتھ بات کرنے کو راضی نہیں ہوتی تھی تو چاچا مجھے بوتلیں لینے بھیج دیتا تھا اور میرے آنے تک اسے راضی بھی کر لیتا تھا میرے ساتھ بات کرنے کو۔

پھر رفتہ رفتہ پہلوانی سے میری گپ شپ ہو گئی تو میں ملاقات کے دوران بوتلیں لینے جانے سے انکاری ہونے لگ گیا تب پہلوانی نے ہی سمجھایا کہ چاچا میرے بڑوں کی جگہ ہے اور اس کی عزت کرنی چاہیے مجھے، یہ سن کر پھر کبھی میں نے انکار نہ کیا بوتلیں لانے سے۔ پہلوانی کے کہنے پر ہی میں نے سکریپ کا اپنا سارا گودام اور کام چاچے کے حوالے کیا۔

ابا جی کو اسی گودام سے کروڑوں میں گھاٹا ہوا جس کا صدمہ وہ سہہ نہ سکے۔ حالانکہ بعد میں چاچا اسی گودام سے نوٹ چھاپتا رہا۔ پیسہ بس نصیب سے ملتا ہے اس میں عقل دا کوئی دخل نہیں پہلوان نے حتمی اعلان کیا۔

یہ اعلان سن کر ہی میں کہانی سے جاگا کہ یہ کس کی پیار کہانی ہے چاچے اور پہلوانی کی یا ہمارے پہلوان کی۔ پہلوان کہانی سنانے میں مگن تھا اس نے کہا بس اک دن ہم پہلوانی سے ملنے جا رہے تھے کہ میں نے چاچے کو بولا کہ یہ لے پھڑ پیسے اور جا کر بوتلیں ابھی لے آ بلکہ جو وی کھانا مرنا ہے وہ ابھی خرید مجھے درمیان سے اٹھا کر نہیں بھیجنا بڑا ٹیم ضائع ہوتا ہے۔ چاچا مجھے گھورتا رہا لیکن کیا کر سکتا تھا کہ میں مالک بھی تھا اور عمر میں اس کے برابر ہی تھا۔

شام کا ویلا تھا اندھیرا سا تھا جا کر پہلوانی سے ملا تو اس نے کہا بہت اچھا ہوا کہ اکیلے آئے ہو اس چول کو ساتھ نہیں لائے غور سے میری بات سنو آج ملاقات نہیں ہو سکتی البتہ رات گھر آ جانا چھت سے۔ پہلوان بولا کہ ساڈی تے بس عید ہو گئی۔ چاچے کو بتا دیا کہ اج وہ جلدی چلی گئی باقی پروگرام نہ بتایا۔

اگے کہانی سادہ ہے پہلوان نے رات کو چھت پھلانگی دروازہ کھلا ملا سیڑھیوں سے پہلوانی کے ساتھ اتر رہا تھا ذرا سی روشنی ہوئی تو پہلوانی نے ہمارے پہلوان کی شکل دیکھ کر اس کے بقول خوشی سے چیخ ماری سارا گھر اٹھ گیا دونوں پھڑے گئے۔

پہلوان نے بتایا کہ یار جب میں پھڑا گیا نا تو اس کے گھر والوں نے مجھے بڑا کٹیا سامنے کھڑی پہلوانی رو رہی تھی اور ہاتھ باندھ کر منت بھی کر رہی تھی کہ باکسنگ نہ کرنا میں نے بھی نہیں کی اس کا حکم جو تھا۔ تھوڑی دیر میں ابا جی پہنچ گئے چاچا ساتھ تھا۔ ابا جی نے وہیں مجھے اپنے نئے جوتے سے مارا۔

اس کے بعد اندر گئے ان کے ساتھ کچھ بات چیت کی اور باہر آ کر اعلان کر دیا کہ پہلوانی کا ویاہ چاچے کے ساتھ ہو گا۔ چاچا میرے گل لگ کے رویا کہ اوئے میں تیرے پیار دے صدقے بھولیا۔
Jun 30, 2016 

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments