تلور کی یخنی، عرب شہزادے اور غریب کی بیٹی


\"phumbnail\"سپریم کورٹ نے آج وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تلور کے شکار کے لئے لائسنس جاری کرنے کا حق و اختیار دے دیا ہے۔ اب یہ حکومتیں اپنی صوابدید کے مطابق متعلقہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جسے چاہیں لائسنس جاری کرسکتی ہیں۔ 1972 میں ایک آرڈی ننس کے ذریعے تلور کو نایاب پرندہ قرار دیتے ہوئے اس کے شکار پر پابند لگا دی گئی تھی۔ تاہم پاکستانی حکومتوں نے اس پرندے کا شکار کرنے کے رسیا دولت مند اور طاقتور عرب شیوخ کو تلور کا شکار کرنے کے لائسنس کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ اس فیصلہ میں ایک نایاب پرندے کی حفاظت کے اصول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس ملک میں قانون سب کے لئے برابر نہیں ہے۔ صاحب حیثیت اس سے استثنیٰ کا حق رکھتے ہیں۔
تلور کی حفاظت کے نقطہ نظر سے سپریم کورٹ نے گزشتہ برس اگست میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ حکومت 1972 کے قانون کے تحت پابندی کو نظر انداز کرتے ہوئے لائسنس جاری نہیں کرسکتی۔ اس طرح ملک میں تلور کا شکار بند ہو گیا تھا۔ اور اس وقت تک تلور کے شکار کے لئے جاری ہونے والے سب لائسنس منسوخ کردئے گئے تھے۔ آج کا فیصلہ اس حکم کے خلاف نظر ثانی کی اپیل پر دیا گیا ہے۔ وفاقی اور ملک کے تین صوبوں پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے اس فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کی تھی۔ آج عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کررہے تھے ، اس اپیل پر فیصلہ سنایا اور چار ایک کی اکثریت سے قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ قانون بنانے کا اختیار نہیں رکھتی ، اس لئے تلور کے شکار پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ جسٹس قاضی فیض عیسیٰ نے اختلافی نوٹ میں اس فیصلہ کی مخالفت کی ہے۔
عدالت نے حکومت کا یہ مو¿قف بھی تسلیم کرلیا ہے کہ عرب ملکوں کے امیر شیوخ کو تلور کے شکار کی اجازت نہ دے کر ملک کے خارجی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں اور ان علاقوں میں سرمایہ کاری میں بھی کمی ہوگی جہاں شیوخ تفریح طبع کے لئے تلور جیسے نایاب پرندے کا شکار کرنے کے لئے آتے ہیں۔
اس فیصلہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک کی عدالتیں مصلحت اور ضرورت کی محتاج ہیں اور قانون کی صراحت ان مفادات کی روشنی میں ہی کی جاتی ہے جن کا تعین ملک کا برسر اقتدار طبقہ کرتا ہے۔ عام آدمی قانون کا پابند ہے لیکن صاحبان اختیار دولت صرف کرکے ہر قانون کی دھجیاں اڑانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ملک کی عدالتیں اس عمل کو جائز قرار دینے کو برا نہیں سمجھتیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح کرتا ہے کہ وہ تو پرندوں کی حفاظت کا فریضہ بھی ادا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ انسانوں سے انصاف کے راستے میں تو بے حد مشکلات حائل ہوتی ہیں۔
یوں تو ملک کی عدالتوں کے پاس مقدمات کی بھرمار ہے اور کسی اپیل پر غور کے لئے برس ہا برس انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن یہ ہماری قومی کمزوری اور دولت اور طاقت کا کرشمہ ہی ہے کہ مقدموں کے بوجھ تلے دبی سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں تین ماہ کے اندر ہی فیصلہ سنا دیا۔ اور خود اور پاکستان کی حکومت کو عیاشی کے متوالے عربوں کے سامنے سرخرو کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments