بگڑا بچہ، توجہ طلب رویہ اور رمضان ٹرانسمیشنز


تحریر : سید راشد حسن

\"syedہمارے ایک رشتہ دار کا بیٹا میری آنکھوں کے سامنے ہی نوزائیدگی سے لڑکپن کو پہنچا۔ ننھیال اور ددھیال میں پہلا بچہ ہونے کی وجہ سے وہ شروع سے ہی اپنے ماموؤں اور چچاؤں سمیت پورے خاندان کی آنکھوں کا تارا بنا رہا۔ اس کے ناز نخرے آخری حد تک اٹھائے گئے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں اور حرکتوں کو باقاعدہ محفلوں میں ڈسکس کیا جاتا رہا۔ لاڈ پیار اور توجہ کی جتنی بارش کسی پر ہو سکتی تھی وہ اس پر ہوئی۔ لیکن کچھ سال بعد اس کے بھائی کی ولادت اور پھر خالو اور چچا کے گھر بچوں کی آمد نے خاندانی سپاٹ لائٹ (spotlight) پر اس کی اجارہ داری ختم کرا دی۔ ہم صرف تصور کرسکتے ہیں کہ ایک چھ یا سات سال کا بچہ جس نے آنکھ کھولتے ہی اپنے آپ کو توجہ کا محور پایا ہو یوں اپنے والدین اور باقی لوگوں کی عدم توجہ کا شکار ہوجائے تو اس پر کیا گزری ہوگی۔

پہلے یہ دیکھنے میں آیا کہ وہ چڑچڑے پن کا شکار ہوگیا، اس کے بعد کچھ عرصہ تنہائی پسند رہا، پھر کچھ وقت کے ساتھ اسکے رویہ میں مستقل تبدیلی آگئی جسے نفسیات کی زبان میں توجہ طلب رویہ (attention seeking behaviour) کہا جائے تو مناسب ہوگا۔ عام طور پر یہ رویہ ان لوگوں میں پایا جاتا ہے جو بچپن سے تنہائی اور نظر اندازی کا شکار رہے ہوں ان میں توجہ حاصل کرنے کی طلب اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہ اس کے لئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ یہ بچہ بھی اچانک آنے والے اس فیز سے جو شاید ہر کسی کے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر آتا ہے، اپنی کچی عمر کی وجہ سے نمٹ نہ کر سکا اور ریکشن کے طور پر اس رویہ کی دلدل میں پھنس گیا۔

اس نے سب سے پہلے اپنی عمر کے بچوں میں وقت گزارنے کی بجائے بڑوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا اور ان کی باتیں اور ایشوز جو اس کی عمر کے لحاظ سے ہائی آئی کیو(IQ) کے تھے ان میں بے وجہ دلچسپی لینا شروع کردی۔ پھر اس نے نقل اتارنے سے لے کر لطیفہ سنانے اور لگائی بجھائی سے لے کر چھوٹی موٹی باتوں کا بتنگڑ بنانے کا فن بھی سیکھ لیا اس کے ان مہارتوں نے فیملی میں بہت سے مداح بنالیے، اس کی ہر پرفارمنس پر خوب تالیاں بجنے لگی اور ساتھ کے ساتھ اس کی ذہانت کے قصہ زد عام ہونے لگے۔ بالآخر جو توجہ اس سے چھن گئی تھی وہ چند سال بعد دوبارہ زیادہ بھرپور طریقے سے حاصل ہوگئی۔ لیکن وہی و قت جب وہ اس تباہ کن رویہ میں پوری طرح پھنسا ہوا تھا اس کی تعلیمی کیرئر کا ابتدائی اہم فیز تھا۔

بدقسمتی سے ستائش کی خواہش نے اس کو اس میدان میں دوسروں سے بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ وہ جو گھر میں اپنی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی کی وجہ سے مقبول تھا، پڑھائی میں بری طرح سے پٹنے لگا۔ اس کے والدین کی آنکھیں بھی مسلسل ناکامی نے کھول دیں لیکن پانی سر سے گزر چکا تھا۔ ٹیوشن، اکیڈمی اور کئی جتن بھی اس کو پٹری پر نہ چڑھا سکے۔ دوسری جانب وہی خاندان کے لوگ جو اس کی ذہانت کے بڑے معتقد تھے اسے سر عام بگڑا ہوا بچہ قرار دینے لگے اور اس کے والدین کو اسے ڈھیل دینے کو اس کی نالائقی کا ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگا۔ اب وہ لڑکا اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی اپنا ضائع کئے ہوئے وقت کی تلافی اور اس رویے سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہا جو شروع (in the first place) میں اس کی بربادی کا سبب بنا تھا۔
ہمارے ملک میں ٹیلی وژن پر چلنے والے گیم شوز اور رمضان ٹرانسمیشنز کے عروج و زوال کی تاریخ اس لڑکے کی پندرہ سالہ زندگی کے نشیب و فراز سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ شروع میں جب ایک ہی سرکاری چینل ہوتا تھا تو اس کے ہر ڈرامے اور پروگرام کو چاہے وہ معیاری ہو یا نہ ہو، ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ ستر کی دہائی میں جب طارق عزیز نے نیلام گھر شروع کیا تو اس کو بہت پزیرائی ملی۔ یہ شو ہر لحاظ سے رجحان ساز تھا۔ اپنی اصل میں گیم شو کے طرز پر بنائے جانے والے اس پروگرام میں گیمز کم اور دوسرے سیگمنٹ زیادہ تھے۔ پہلی دفعہ کسی شو میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت، ملکی اور بین الاقوامی برینڈز کی مختلف سوالات اور کوئز مقابلوں کے لئے سپانسرشپ اور مہنگے انعامات دینے کا آغاز ہوا۔ اس کے علاوہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی پروگرام میں شرکت اور چھوٹا موٹا انٹرویو پھر حمد، نعت، شعر و شاعری اور موسیقی کے لئے علحیدہ سیگمنٹ اس کی خاصیت تھے۔ یہ شو تقریبا تین دہائیوں تک کچھ وقفوں کے ساتھ اپنی مقبولیت قائم رکھے رہا جس کی وجہ شائستگی اور متانت کا اس شو میں ہمیشہ خیال رکھا جانا اور دو نسلوں (generation) کی تربیت میں اس کا اہم رول تھا۔

پرائیویٹ چینلز کا جب دور شروع ہوا تو پی ٹی وی کے جن بہت سے ٹرینڈز کی نقل کرنے کی کوشش کی گئی ان میں طارق عزیز کا یہ شو بھی شامل تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کا تجربہ رمضان ٹرانسمیشن پر ہوا۔ طارق عزیز کے شو کے پیٹرن کو کچھ اوپر نیچے کر کہ افطار اور سحر کے اوقات میں ایسا فٹ کیا گیا کہ مقبولیت کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ گانوں کی جگہ قرآن پاک کی تلاوت آگئی، علماء سے فقہ کے مسائل حل کرانے کے لئے کالز کا سلسلہ شروع کیا گیا، ضرورت مندوں کی مدد کے لئے علحیدہ ایئر ٹائم مختص کیا گیا، انعامات کی تعداد اور قیمت میں نا قابل یقین اضافہ دیکھنے میں آیا جانے لگا۔ غرض اس شو میں شروع سے آخر تک دلچسپی برقرار رکھنے کی وجہ سے پورے رمضان ناظرین اورحاظرین لگے بندھے بٹھائے رکھا۔

اس ٹرینڈ کے ہٹ ہوتے ساتھ ہی اگلے سال رمضان میں اس ٹرانسمیشن کی ہوا چل پڑی۔ توقع یہ تھی کہ رمضان کے بابرکت اوقات میں یہ ٹرانسمیشنز ہماری دینی اور علمی معلومات میں اضافہ کے ساتھ ہلکی پھلکی تفریح بھی فراہم کریں گے جس سے ہمارے افطار اور سحر کا وقت اچھا گزر جائے گا لیکن ان پروگرامز نے وقت کے ساتھ مختلف راستہ ہی اختیار کر لیا۔ جس چینل کے ہاتھ جو اداکار یا اداکارہ لگی اس کی شیو بڑھوا کر یا دوپٹا پہنا کر اسے ہوسٹ بنا دیا گیا۔ اب چونکہ مقابلہ بازی تھی، ریٹنگ کی دوڑ تھی، اس کا فوری نتیجہ ناظرین کی ویور شپ حاصل کرنے کے لئے توجہ طلب اوچھے ہتکھنڈوں کا ان پروگرامز کا لازمی حصہ بننے کے طور پر نکلا۔

انعامات کے لئے بزرگوں اور عورتوں سے لائیو ڈانس کرائے جانے لگے، حاظرین کی شکل و صورت پر پھبتیاں کسی جانے لگی، مرد اور خواتین نعت خواں کندھے سے کندھا ملا کر درود و سلام پڑھتے نظر آنے لگے، فلمی شخصیات سے رمضان کی برکتوں پر تبادلہ خیال کیا جانے لگا، کبھی حاظرین کو ان سکرین گالی دینے تو کبھی خودکشی کے نقلی کوشش کر کے دکھانے کے مطالبہ کئے جانے لگے، کہیں نازک مذہبی معاملات پر غیر ضروری سوال اٹھائے جانے لگے تو کہیں علماء کی تحقیر کو معمول بنا لیا گیا، رومانوی گانوں کی دھنوں پر رقص سے لے کر اظہار محبت جیسے پتہ نہیں کتنی اخلاقیات سے گری حرکتیں پچھلے کئی سال سے رمضان کی ٹرانسمیشنز میں کھلم کھلا ہوتی چلی آرہی ہیں، اب حال یہ ہے کہ سنجیدہ طبقہ نے ان ٹرانسمیشنز کے دوران ٹی وی ہی بند کر دیا ہے۔

پیمرا کو اس سال تھوڑا بہت ہوش آیا ہے۔ رمضان کے مقدس مہینے کا وقار مجروح کرنے کے سلسلہ کو قابو میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن طوفان بدتمیزی اس قدر ہے کہ کچھ پروگراموں کی جزوی، کلی بندش اور وارننگ نوٹس بد اخلاقی کے ان ہاتھیوں کو نکیل ڈالنے کے لئے نا کافی ثابت ہورہے ہیں۔ اگر ٹرانسمیشنز میں کوئی ایک مسئلہ ہو تو تنبیہ یا بندش کی دھمکی کچھ اثر کر سکتی ہے، لیکن اگر یہ بذات خود ایک اخلاقی مسئلہ بن چکی ہوں تو ہر سر زنش ہی بے معنی ثابت ہوگی اور ہو رہی ہے۔ اس صو رت حال میں اگر کوئی تبدیلی آسکتی ہے تو وہ خود چینل انتظامیہ کی طرف سے ہی ممکن ہے۔ لیکن وہ اس بات سے بے پروا ہیں کہ سنجیدہ طبقہ ان کی پھکڑبازیوں کو کس طرح دیکھتا ہے، عوام میں ان کی کچھ مقبولیت برقرار ہنا ہی ان کے لئے موجودہ روش پر قائم رہنے کے لئے کافی جواز ہے۔

کڑوا سچ یہ ہی ہے کہ یہ چینلز بگڑے بچے کی طرح ہر بہتری کی کوشش کے اثر انداز ہونے سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ وہ موبائل، لان کے سوٹ اور موٹر سائیکل کے انعامات سے غریب عوام کی جس توجہ کو حاصل کر کے بڑے سرشار ہیں انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو اوٹ پٹانگ حرکتوں پر تالیاں بجاتے ہیں وہی لوگ بعد میں لعنت ملامت میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ اس لئے اخلا قی اصولوں کی پابندی میں ہی میں ان شوز اور ٹرانسمیشنز کی بقا ہے، جس کی زندہ مثال چار دہائیوں سے چلنے والا طارق عزیز شو ہے، کیونکہ جس دن عوام کا دل ان سے بھر گیا اس دن بگڑے بچہ کی طرح ان کی ڈگڈگی کے فن کا نہ کوئی تماشائی ہوگا اور نہ ہی کو ئی پرسان حال۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments