بھارتی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں


جب ایک انسان کے حقوق چھینے جاتے ہیں‌ تو تمام انسانوں‌ کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔ حال ہی میں‌ کشمیر میں‌ سات شہریوں‌ کے قتل سے برصغیر میں جمہوریت کے بدنما داغ نمایاں ہوئے ہیں۔ حکومت اور ریاستی اداروں کی بے حسی سے عوام کی آزدہ دلی میں‌ اضافہ ہوا ہے۔ کشمیر میں‌ مسلح شورش اور انسداد بغاوت میں‌ عوام کے حقیقی مسائل، صدمات اور مشکلات کا تذکرہ کہاں‌ ہے؟

کیا ہم اس باپ کی کتھا سن رہے ہیں جو خود کو لاچار محسوس کرتا ہے کیونکہ وہ اپنے خاندان کا بوجھ نہیں‌ اٹھا سکتا؟ کیا ہم ان خاندانوں کی بے چینی سمجھ سکتے ہیں جن کو اس تکلیف دہ حقیقت کا اندازہ ہے کہ ان کے بچوں کی زندگی کے اہم سال ضائع ہو رہے ہیں جبکہ باقی دنیا آگے بڑھ رہی ہے؟ کیا ہم اس ماں کا نوحہ سن سکتے ہیں جس کا بیٹا زندگی شروع کرنے کا انتظار کر رہا تھا لیکن وہ فوجی مظالم کا شکار بن گیا؟ کیا ہم اس تعلیم یافتہ نوجوان کی مایوسی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو یہ سمجھ رہا تھا کہ دنیا میں‌ اس کی ترقی کے مواقع موجود ہیں لیکن اس کا مستقبل تاریک ہے؟

کیا ہم ان سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں کی مایوسی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جن کے خیالات کو طاقت کے زور سے دبا دیا گیا؟ کیا ہم تہذیبی اور تعلیمی اداروں کی تنہائی کو محسوس کرسکتے ہیں؟ کیا ہم ان لوگوں کی شناخت کا بحران دیکھ سکتے ہیں جن کے ووٹ تو گنے جاتے ہیں لیکن ان کی ضروریات اور ان کے خیالات نظر انداز کردیے جاتے ہیں؟ کیا ہم نہتے عوام پر گولیاں چلانے کی لاقانونیت کو دیکھ سکتے ہیں؟

کشمیری عوام اس وقت ناقابل بیان صدمات سے گذر رہے ہیں۔ ان حالات میں‌ کوئی معاشی یا سیاسی ترقی ممکن نہیں۔ کشمیر برصغیر کی سیاست کا ایک رستا ہوا ناسور بن چکا ہے جس نے انڈیا اور پاکستان کے مابین تعلقات میں‌ ناقابل تلافی کڑواہٹ گھول دی ہے۔ لائن آف کنٹرول کے دونوں‌ طرف موجود فوجی طاقتوں کے آمنے سامنے ہونے سے کسی بھی وقت ایک خوفناک جنگ چھڑ سکتی ہے جس کے نتائج تصور سے زیادہ بھیانک ہوں‌ گے۔

انڈیا کی سیاست کے مین دھارے کے سیاستدان جو کشمیر کے مسئلے کا جارحانہ حل پیش کرتے ہیں، وہ ملک کے لیے بہتری پر کام نہیں کررہے ہیں۔ اصل میں‌ وہ اس کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انڈیا ان طریقوں سے طاقت حاصل نہیں‌ کرے گا۔ اس طرح‌ کی یکطرفہ کشمیری پالیسی سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔ تعمیری سوچ رکھنے والے ہندوستانی دانشور یہ بات سمجھ چکے ہیں۔

جموں‌ و کشمیر کی تاریخ‌ کو کئی بار مسخ کیا گیا ہے پھر بھی اس کی حقیقی کہانی کے تانے بانے تاریخ‌ کے جھروکوں‌ سے جھانکتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وعدوں کے وفا نہ ہونے، ٹوٹے ہوئے معاہدوں، سیاسی دھوکے، فوجی جبر، غیر قانونی سیاسی قید، انسانی حقوق کی پامالی کے سلگتے ہوئے واقعات، انسانی ہجرت، اور نئی دلی اور اسلام آباد کے مابین خراب تعلقات کی تاریخ ہے جس کے زخم بھرنا باقی ہیں۔

جموں و کشمیر کے عوام نے اس ریاست میں‌ بیرونی عوامل کی مداخلت سے پیدا ہونے والی سماجی اور معاشرتی محرومی، جمہوری اداروں کی تباہی اور انسانی حقوق کی پامالی کی ایک بھاری قیمت ادا کی ہے۔ یہ بغاوت انڈیا نے ضرور ابھاری ہوگی لیکن اس کو قائم دائم رکھنے میں‌ پاکستان کی جانب سے ملنے والے فوجی، سیاسی اور سماجی سہاروں کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ کشمیر کی ریاست کی آزادی چاہنے والے افراد پاکستان کی آزاد کشمیر میں‌ حکومت کے اتنے ہی مخالف ہیں جتنا کہ جموں‌ و کشمیر کی ریاست میں‌ انڈیا کی حکومت کے۔ اس شورش کے دوران انڈیا کی فوج کو احتساب کے خوف سے ماورا ہو کر تشدد کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔

انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں نے جموں و کشمیر کے عوام کا حوصلہ توڑنے کے لیے باقاعدہ مہم جوئی کی ہے جس میں سب سے زیادہ نقصان دہ کشمیری عوام کو ان کے ثقافتی ورثے سے محروم کرنا ہے تاکہ کشمیر کے رہنے والوں میں انڈیا اور پاکستان کی قوم پرستی ابھاری جائے۔

گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد کی دنیا کی مجموعی سیاسی اور تہذیبی تعمیر کو شہنشاہیت کے بیانے سے “پہلی دنیا” اور “تیسری دنیا” میں‌ تقسیم کردیا گیا ہے۔ اداراتی سیاست نے “تیسری دنیا” کو ایک وحشیانہ وجود سے تشبیہہ دی ہے جو سماجی اور تہذیبی ارتقا کی صفت سے محروم ہیں۔ غیر مغربی ممالک کی پسماندگی ثابت کرتے ہوئے اعراق اور افغانستان پر حملے کا جواز بھی یہی پیش کیا گیا کہ وہ غیر انسانی معاشرے ہیں جن کو روشن خیالی کی ضرورت ہے۔ ان نفرت اور تباہی پر مبنی بیانیے سے مجموعی ہیجان برپا ہوتا ہے جس سے نسلی فسادات اور انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے جن کی قابل مذمت مثالیں ہم برصغیر میں جگہ جگہ دیکھ سکتے ہیں۔

کشمیر کی قومی خود مختاری کا تصور تب تک خواب ہی رہے گا جب تک کشمیری سیاست دان نئی دلی اور اسلام آباد کے قلم کی جنبش پر قائم کیے جائیں گے۔ کیا ہمارے مرکزی دھارے کے اور علیحدگی پسند سیاستدان کبھی جاہ پسندی کی تنگ نظر سوچ سے اوپر ابھریں گے؟ علاقائی پارٹیوں میں‌ خود احتسابی کی غیر موجودگی سے ان کی نااہلی صاف نمایاں ہے۔ وہ نہیں سمجھ رہے کہ کیا داؤ پر لگا ہوا ہے؟

انڈیا اور پاکستان کی حکومتیں‌ انسانی حقوق کے اداروں کی درخواستوں‌ سے خود کو غیر متعلق نہیں رکھ سکتیں جو 1989-90 سے ہونے والے واقعات کی چھان بین کر رہے ہیں۔ کب تک “دہشت گردی پر جنگ” کے نقارے بجا کر انڈیا اور پاکستان کی حکومتیں انسانی حقوق کی پامالی کے ہر واقعے میں‌ بیرونی ایجنسیوں‌ کو قصوروار ٹھہراتی رہیں‌ گی؟

(مترجم: ڈاکٹر لبنیٰ‌ مرزا – ایم ڈی)

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments