میری بیٹی مجھے بہت پیاری ہے


پاپا جان کیا آپ دو دن کی چھٹی لے سکتے ہیں۔ میری بیٹی نے سوال کیا۔ کیوں کیا ضروری کام ہے۔ میں نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ پاپا جان میری ایک کلاس فیلو اور دوست ڈاکٹر کی شادی ہے اور میں چونکہ اتفاقاً پاکستان آئی ہوں اس لیے اس کی شادی میں شرکت کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے اپنی مصروفیات چیک کیں اور ایک دو میٹنگ کا نیا شیڈول بنا کر بیٹی کو ہاں کر دی۔

میری بیٹی ان دنوں امریکہ سے چھٹیوں پر بچوں کے ساتھ ہمارے پاس آئی ہوئی تھی۔ امریکہ میں وہ کنساس میں ایک اچھے ہسپتال میں کافی سینئر پوزیشن پر کام کر رہی ہے۔ فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کرنے کے بعد سپیشلائزیش کرنے کے لیے امریکہ جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہماری اجازت اور بندوبست سے امریکہ میں اسے ایک اچھی یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ پوسٹ گریجویٹ کرنے کے بعد اسے کنساس کے ایک بہت ہی اچھے ہسپتال میں نوکری مل گئی۔

یہاں کے حالات اور اس کے بہتر مستقبل کی خاطر ہم نے اس کا یہ فیصلہ قبول کر لیا۔ ویسے بھی وہ میری سب سے پیاری بیٹی ہے اور ہمارے خاندان میں پہلی خاتون ڈاکٹر ہے۔ خاندان کی ناراضگی مول لے کر میں نے اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ بھیجا تھا۔ کیونکہ بہت سی خالاؤں نے اپنے نکمے بیٹوں کے لیے رشتہ ڈال رکھا تھا۔ لیکن ایک پڑھی لکھی شریف فیملی میں اس کا بندھن بندھ گیا اور وہ اب امریکہ میں اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستان وہ ہم سے ملنے کے لیے آئی ہوئی تھی اور اپنی سہیلی کی شادی کی خبر پا کر اس میں شرکت کرنا چاہتی تھی۔

بیٹی کی سہیلی کا گاؤں قصور کے ایک سرحدی علاقہ میں تھا۔ شادی سے ایک روز قبل ہم لاہور کے لیے روانہ ہوئے جو ہمارے شہر سے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ ہم نے رات اپنے ایک پرانے دوست کے ہاں گزاری اور شادی والے دن صبح گاؤں کے لیے روانہ ہوئے۔ لاہور والے دوست نے اپنا ڈرائیور ہمارے ساتھ کر دیا تاکہ راستہ میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اکتوبر ہونے کے باوجود گرمی کی شدت میں کمی نہیں آئی تھی۔ ہم دو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے۔

سرحدی علاقہ میں یہ ایک بہت بڑا پرانا گاؤں تھا جوکہ بارڈر سے تقریباً ایک کلو میٹر دورتھا۔ پوچھتے پچھاتے ہم آخر کار گھر میں پہنچ گئے۔ بہت ہی سادا اور پرانی طرز کا بنا ہوا گھر تھا جس میں صحن کے ایک طرف قطار میں کمرے بنے ہوئے تھے۔ آگے برآمدہ اور صحن میں برگد کا ایک بہت بڑا درخت تھا۔ درخت کے نیچے ایک چارپائی پر ایک بزرگ خاتون جو شکل وصورت سے دیہاتی لگ رہی تھیں، بیٹھیں تھیں۔

گھر میں شادی والی کوئی چہل پہل نظر نہیں آر ہی تھی اور نہ ہی کوئی مہمان نظر آ رہا تھا جس سے ہمیں کافی حیرانی ہوئی۔ بزرگ خاتون ہمیں ملیں۔ بیٹی نے تعارف کرایا اور سہیلی کا پوچھا۔ انہوں نے ہمیں ایک کمرے میں بٹھایا اور پانی وغیرہ کا پوچھا اور پھر ہمیں ایک دوسرے کمرے میں لے گئیں۔ جہاں پر بیٹی کی سہیلی دلہن بنی بیٹھی تھیں۔ دونوں سہیلیاں بڑی گرم جوشی سے ملیں۔ ہمیں کافی حیرانی ہوئی کہ شادی والے گھر میں دونوں ماں بیٹی اکیلی ہیں اور بارات آنے سے بہت قبل دلہن تیار ہو کر بیٹھی ہوئی ہے۔

میری بیٹی اور اس کی دوست کافی عرصہ بعد ملی تھیں۔ اس لیے وہ اپنی باتوں میں الجھ گئیں تو میں باہر صحن میں آگیا اور درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اتنے میں دو جوان گھر میں داخل ہوئے۔ مجھ سے ملے اور تعارف پر پتہ چلا کہ دلہن کے بھائی ہیں۔ میں نے شادی کی مبارکباد دی تو انہوں نے کوئی خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ مجھے کافی حیرانی ہوئی۔ ایک بھائی نے کہا کہ مبارکباد کیسی۔ ہماری بہن نے اپنی مرضی سے شادی کرنی ہے اور وہ بھی غیر برادری میں ہمارا باپ بھی ساتھ مل گیا ہے۔ ان کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ گھر میں شادی کی چہل پہل کیوں نہیں ہے۔

تھوڑی دیر میں ایک عمر رسیدہ بزرگ گھر میں داخل ہوئے اور ہماری طرف بڑھے، تعارف ہونے پر تپاک سے ملے اور اتنی دور سے آنے کے لیے شکریہ بھی ادا کیا۔ میں نے ان سے شادی کے انتظامات کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ گاؤں سے باہر ٹینٹ وغیرہ لگا کر بارات کے استقبال کا بندوبست کیا ہے۔ دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ ان کے تین بیٹے ہیں اور ایک بیٹی۔ انہوں نے محنت مزدوری کرکے اور اپنی زمینوں پر دن رات کام کرکے سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ہے۔ بڑا بیٹا انجینئرہے اور سعودی عرب میں ہے۔ ایک بیٹا سکول ٹیچر ہے اور ساتھ ہی گاؤں میں ایک جنرل سٹوربنا لیا ہوا ہے۔ سب سے چھوٹا بیٹا محکمہ زراعت میں افسر ہے اور پسند کی شادی کے بعد سسرال میں ہی شفٹ ہو گیا ہے۔

بیٹی دونوں بھائیوں سے بڑی ہے۔ بیٹی شروع سے ہی بہت لائق تھی اور اس کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنے۔ جب بیٹی نے میٹرک بہت ہی اچھے نمبروں سے پاس کیا تو اسے کالج میں داخلہ کرانے کے لیے میرے پاس رقم نہیں تھی۔ خاندان والوں نے زور دیا کہ اسے پڑھا کر کیا کرو گے۔ اس کی شادی کر دو۔ گو کہ میں چٹا ان پڑھ ہوں لیکن میں نے سوچا کہ اگر بیٹوں کو پڑھا رہا ہوں تو بیٹی کو کیوں نہ پڑھاؤں۔ میں نے کچھ رقم قرض لے کر بیٹی کو شہر کے کالج میں داخل کروایا دیا۔

اور شہر میں ہی دن رات مزدوری کرنے لگا۔ ایک دن میں تین تین ٹرکوں سے اکیلے سیمنٹ اتارہ ہے میں نے۔ بیٹی نے ایف ایس سی میں بہت محنت کی اور دن رات ایک کرکے ضلع بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور اسے میرٹ پر فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ ڈاکٹر بن کر وہی سے اس نے سپیشلائزیشن بھی کر لی اور یہاں قصور میں گورنمنٹ ہسپتال میں اس کی تعیناتی بھی ہو گئی۔ اب وہ تین سال سے گھر کا سار ا خرچہ چلا رہی ہے۔ چھوٹے بھائی کو جو کہ سکول میں پڑھاتا ہے بیٹی نے گاؤں میں جنرل سٹور بنا کر دیا ہے۔

وہ اپنے بیوی کے ساتھ ہمارے پاس رہتا ہے۔ اس کی بیوی کی مرضی تھی کہ اس کے ان پڑھ بھائی کے ساتھ بیٹی کی شادی ہوجائے۔ انکار پر وہ روٹھ کر میکے بیٹھی ہے۔ برادری میں دو ایک اور لوگوں نے رشتے بھجوائے لیکن تعلیم یافتہ نہ ہونے اور کوئی اور کام نہ کرنے کی وجہ سے بیٹی نے انکار کر دیا اب ساری برادری ہم سے ناراض ہے۔ بڑے بیٹے نے بیٹی سے مکان خریدنے کے لیے پانچ لاکھ روپے لیے تھے۔ ادھار اب تک واپس مانگنے پر ناراض ہو گیا ہے۔ چھوٹے بیٹے کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ اب گھر کا خرچہ کیسے چلے گا اور سٹور کا سامان کس کے پیسوں سے آئے گا۔

بیٹی کے ساتھ کام کرنے والے ساتھی ڈاکٹر کا رشتہ آیا تو میں نے بیٹی کی مرضی سے بات طے کر دی اور شادی بھی۔ اب دونوں بھائی ناراض ہیں کیونکہ ان کا مالی فائدہ متاثر ہو گا اور نہیں رہے گا اور برادری والے اس لیے ناراض ہیں کہ اچھی خاصی کمائی کرنے والی لڑکی غیر خاندا ن میں چلی گئی ہے۔

میں نے اپنی بیٹی کے لیے بہت محنت کی ہے اور آج تک میں نے بیٹی کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات پوری کی ہے چونکہ میں اس سے بہت ہی زیادہ پیار کرتا ہوں۔ یہ باتیں کرتے ہوئے وہ رو پڑے۔ میں نے انہیں کندھے سے لگا کر تسلی دی۔ میں اور میری بیوی اس شادی سے خوش ہیں۔ انہوں نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ایک ان پڑھ مزدور دیہاتی والد کے یہ خیالات دیکھ کر میرے دل میں ان کی قدر سو گنا بڑھ گئی۔ ورنہ ہم پڑھے لکھے والدین بھی اپنی بیٹیوں کا اتنا خیال نہیں کرتے اور اپنی انا کے آگے ان کو قربان کر دیتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ایسی کتنی مثالیں موجود ہیں جن پر لڑکیاں اپنے خاندان کو پالتے ہوئے بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ اپنی خواہشات کو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں پر قربان کر دیتی ہیں اور جب بھی وہ اپنا گھر بسانے کی کوشش کرتی ہیں۔ سارا گھر ان کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).