جنوبی افریقہ سیریز میں یاسر شاہ کا کردار


پاکستان نے اپنے دورہ جنوبی افریقہ کا آغاز جنوبی افریقہ انویٹیشن الیون کے خلاف تین روزہ میچ میں فتح کے ساتھ کر لیا ہے۔ میچ کی خاص بات پہلی اننگ میں اظہر علی اور بابر اعظم کی سنچریاں اور دوسری اننگ میں امام الحق اور حارث سہیل کی نصف سنچریوں کے ساتھ ساتھ محمد عامر کی دوسری اننگ میں تین وکٹیں تھی۔ اس میچ کی ایک اور خاص بات پاکستانی ٹیم کا ٹارگٹ چیز کرنا بھی تھا۔ اگرچہ یہ میچ جنوبی افریقہ کے نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کے خلاف تھا اور اس ٹیم میں کوئی بین الاقوامی کھلاڑی شامل نہ تھا لیکن دورے کا آغاز جیت سے کرنا اور اہم کھلاڑیوں کا پرفارم کرنا اہمیت کا حامل ضرور ہے۔ دورے کا پہلا باکسنگ ڈے ٹیسٹ 26 دسمبر سے شروع ہو گا۔

جنوبی افریقہ کے بیٹسمین لیگ سپن کے خلاف ہمیشہ سے ایک نسبتاً آسان شکار رہے ہیں۔ اس کی وجہ جنوبی افریقہ کی پچز کا فاسٹ باؤلرز کے لئے موزوں ہونا اور جنوبی افریقہ کی ڈومیسٹک کرکٹ میں لیگ سپنرز کی کمی دونوں ہو سکتے ہیں۔ شین وارن ہوں یا مشتاق اور کمبلے، دانش کنیریا ہوں یا ایشون جنوبی افریقہ کے بیٹسمین اچھے لیگ اسپنر کے خلاف ہمیشہ سے مشکلات کا شکار رہتے ہیں اور یہ مشکلات برصغیر کی سپن وکٹوں کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ کی تیز وکٹوں پر بھی ہیں، جس کا ثبوت شین وارن، کمبلے کا جنوبی افریقہ میں ریکارڈ ہے۔

پاکستان نے جنوبی افریقہ میں اب تک صرف دو ٹیسٹ میچز جیتے ہیں۔ پاکستان نے پہلا ٹیسٹ جنوبی افریقہ میں 1997 / 98 کی سیریز میں جیتا تھا۔ اس جیت میں اگرچہ پہلی اننگ میں اظہر محمود اور دوسری میں سعید انور کی سنچریاں اور شعیب اختر کی پہلی اننگ میں پانچ وکٹیں شامل تھیں لیکن میچ جتوانے میں اہم ترین کردار مشتاق احمد کی 9 وکٹوں کا تھا۔ مشتاق احمد نے دوسری اننگ میں جب میچ جیتنے کے لئے جنوبی افریقہ کو صرف 255 رنز کا ہدف مل تھا، 6 وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کو 29 رنز سے فتح سے ہمکنار کیا تھا۔

اسی طرح جب پاکستان نے 07۔ 2006 میں جنوبی افریقہ کو شکست دی تو اس کا ایک اہم ترین کردار دانش کنیریا ثابت ہوئے۔ اس میچ میں پاکستانی بالنگ لائن اپ نے بہترین بالنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کو 124 کے سکور پر ڈھیر کر دیا تھا لیکن دوسری اننگ میں شعیب اختر کے ان فٹ ہونے کے بعد بالنگ کا سارا دارومدار محمد آصف اور دانش کنیریا پر آ گیا تھا۔ اس میچ میں دونوں نے سات سات وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اس میچ کی ایک اور اہم بات پاکستانی ٹیم کا 191 رنز کے ہدف کا تعاقب بھی تھا، جس میں جلدی وکٹیں گرنے کے بعد یونس خان اور کامران اکمل کی نصف سنچریوں کی بدولت پاکستان یہ ہدف حاصل کر پایا۔

ان دونوں میچز میں پاکستان کی فتح میں اہم کردار لیگ سپنرز نے ادا کیا تھا اور اس سیریز میں پاکستانی لیگ اسپنر یاسر شاہ ہیں جو کہ اس وقت بھرپور فارم میں ہیں۔ پاکستان کی نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں ناکامی نے یاسر شاہ کی بہترین کارکردگی کو دھندلا تو ضرور دیا لیکن اس عمدہ کارکردگی سے دورہ جنوبی افریقہ کے لئے کچھ روشن امکانات بھی دکھا دیے۔ یاسر شاہ نے اسی سیریز کے دوران ہی تیز ترین دو سو وکٹوں کا عالمی ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔ پاکستان کی پچھلے پانچ سال میں ٹیسٹ کرکٹ میں کارکردگی کا بہت زیادہ انحصار یاسر شاہ پر رہا ہے اور زیادہ تر یاسر نے ٹیم اور قوم کو مایوس نہیں کیا۔ لیکن جہاں بھی یاسر شاہ ناکامی کا شکار ہوئے وہیں پاکستان میچ جیتنے میں مشکلات کا شکار نظر آیا۔

پاکستان نے 2016 کے دورہ انگلینڈ میں جو دو ٹیسٹ جیتے وہ بیٹسمینوں کی عمدہ کارکردگی کے ساتھ ساتھ یاسر شاہ کی بہترین بالنگ کی وجہ سے تھے۔ اور جن دو میچز میں موسم اور پچ کنڈیشنز کی وجہ سے یاسر شاہ ناکام ہوئے وہیں پاکستان ٹیم بھی ناکامی کا شکار ہو گئی۔ اسی طرح دورہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں جب یاسر شاہ چار میچز میں صرف آٹھ وکٹیں حاصل کر سکے تو پاکستان دونوں سیریز ہار گیا۔ دورہ ویسٹ انڈیز اور سری لنکا میں یاسر شاہ کی عمدہ کارکردگی پاکستان کی سیریز فتح کا باعث بنی تو وہیں سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز یاسر شاہ اپنی بہترین کارکردگی کے باوجود ساتھی کھلاڑیوں کی ناکامی کی وجہ سے نہ جتوا سکے۔

پاکستان کی جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ سیریز میں کارکردگی کا یاسر شاہ کی کارکردگی سے بہت گہرا تعلق ہے۔ آسٹریلیا میں یاسر شاہ موسم اور پچز کے حالات اور کپتان کے غلط استعمال کی وجہ سے ناکام ہوئے تو پاکستان سیریز کے تمام میچز میں شکست کھا گیا تھا۔ جنوبی افریقہ کا دورہ حالات کے لحاظ سے آسٹریلیا سے بہت ملتا جلتا ہے۔ پاکستان کا سیریز جیتنا تو بہت مشکل لیکن اگر پاکستان یہ سیریز برابر بھی کر جاتا ہے تو یہ ایک طرح سے فتح ہی ہوگی اور اس نتیجے کے لئے پاکستانی بیٹسمینوں اور فاسٹ باؤلرز کے ساتھ یاسر شاہ کی عمدہ کارکردگی بہت ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).