مانسہرہ: شہنشاہ اشوک کی عظیم سلطنت کے ستون


مہاراجہ پیا داسی کی سلطنت میں ہر پانچ سال بعد اعلی اہلکار دورہ کریں گے اور اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ان ہدایات پر عمل کیا جا رہا ہے یا نہیں اور دوسرے امور بھی دیکھیں گے۔ ماں باپ کی عزت کرنا، دوستوں سے سخاوت کرنا، واقفوں، رشتہ داروں، برہمنوں اور جوگیوں کی خدمت کرنا اچھی بات ہے۔ جانداروں کا نہ مارنا اچھا ہے، پیسہ خرچنے میں اعتدال کرنا اور بچت کرنے میں بھی اعتدال کرنا اچھی بات ہے۔ افسران ان سب باتوں پر عمل کرنے کا جائزہ لیں گے۔

گزشتہ کئی سو سال سے جانداروں کو مارنا اور ماں باپ کی عزت نہ کرنا، دوستوں سے کنجوسی کرنا، واقفوں، رشتہ داروں، برہمنوں اور جوگیوں کی خدمت سے کترانے کا رویہ بہت بڑھ گیا تھا۔ لیکن اب دیوتاؤں کے چہیتے کے فرامین فطرت کے باعث ہر طرف جنگی نقاروں کی صدا کی بجائے قانون فطرت اور دھرم کی پکار سنائی دیتی ہے۔ آسمان میں رتھیں، مقدس ہاتھی، آگ اور دوسری ملکوتی چیزیں کئی سو سال سے دکھائی دینا بند ہو چکی تھیں مگر اب مہاراجہ پیا داسی کے دور میں نیکیاں بڑھ جانے سے یہ سب دوبارہ دکھائی دینے لگے ہیں۔ یہ فرمان اسی لیے لکھا گیا ہے کہ لوگ ان نیکیوں کا اہتمام کریں اور انہیں ہرگز بھی کم نہ ہونے دیں۔

بھلائی کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ جو شخص کچھ اچھا کرنا چاہتا ہے، اسے پہلے کچھ بہت ہی کٹھن کام کرنا پڑتا ہے۔ مہاراجہ پیا داسی نے کئی بہت اچھے کام کیے ہیں اور اگر دنیا کے خاتمے تک مہاراجہ پیا داسی کے بیٹے اور ان کے بیٹے بھلائی کریں گے تو بہت اچھا ہو گا۔ لیکن ان میں سے جو بھی ان کو نظرانداز کرے گا، وہ بدی کرے گا۔ سچ ہے کہ بدی کرنا بہت آسان ہے۔

مہاراجہ پیا داسی نے بہت سے نیک دل پروہت مقرر کیے ہیں جو دن رات لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ وہ بڑوں بوڑھوں بچوں عورتوں سپاہیوں تاجروں قیدیوں سب کی بھلائی کے لیے کام کر رہے ہیں۔

ماضی میں ریاستی امور کے بارے میں اطلاعات بادشاہ تک ہر وقت نہیں پہنچائی جاتی تھیں۔ مگر اب مہاراجہ پیا داسی نے حکم جاری کیا ہے کہ بے شک میں کھانا کھا رہا ہوں، حرم میں ہوں، خوابگاہ میں ہوں، رتھ پر ہوں، باغ میں ہوں یا جس حال میں بھی ہوں، مجھے عوام کی حالت کے بارے میں اطلاعات فوراً ملنی چاہئیں تاکہ میں ان کی پریشانی دور کر سکوں۔

بلاشبہ لوگوں کی فلاح ہی میری حکومت کی بنیاد ہے۔ اس سے بہتر کام کوئی دوسرا نہیں ہے۔ لوگوں کی زندگی کو خوشی سے بھر دینا مجھ پر ایک قرض ہے جو میں ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اسی لیے چٹانوں پر یہ قوانین فطرت لکھے گئے ہیں تاکہ یہ بہت مدت تک باقی رہیں اور میرے بیٹے، پوتے، پڑپوتے ان کے مطابق دنیا کی بھلائی کے لیے کام کریں۔ لیکن یہ بہت زیادہ محنت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، یہ چاہتا ہے کہ تمام مذاہب ہر جگہ ہونے چاہئیں کیونکہ یہ تمام مذاہب نفس پر کنٹرول کرنے اور دل کی صفائی ہی چاہتے ہیں۔ لیکن لوگوں کی مختلف خواہشات اور چاہتیں ہیں، اور انہیں وہ سب کرنا چاہیے یا اس کا کچھ حصہ۔ لیکن وہ لوگ جو بڑی نعمت پاتے ہیں لیکن خود پر قابو نہیں پا سکتے اور ان کا قلب صاف نہیں ہے، وہ شکر گزار نہیں ہیں اور خلوص سے خالی ہیں، وہ کمینہ فطرت لوگ ہیں۔

ماضی میں بادشاہ سیر و شکار پر جایا کرتے تھے اور عیش و عشرت کے دلدادہ تھے۔ مگر اپنی تخت نشینی کے دس سال بعد دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، مقامات مقدسہ کی زیارات، قانون فطرت کی تعلیم، سادھووں اور برہمنوں کی خدمت، بوڑھوں اور اہل دیہات کی خدمت کے لیے ہی دورے کرتا ہے۔ اس کام سے دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، خوش ہوتا ہے اور اسے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔ یہ خدمت ایک اور ہی طرح کی دولت ہے۔

دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، یہ کہتا ہے کہ وہ شہرت اور شان کسی کام کی نہیں ہے جو کہ عوام کی خدمت کر کے نہ ملے۔ صرف ایسی شان و شہرت ہی مہاراجہ پیا داسی چاہتا ہے کہ اس سے لوگوں میں بدی ختم ہوتی ہے۔

دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، تمام مذاہب کے رہنماؤں اور ان کے خاندان کا احترام کرتا ہے اور ان کی خدمت میں نذرانے پیش کرتا ہے۔ لیکن مہاراجہ پیا داسی ان نذرانوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتا ہے جتنی اس امر کو دیتا ہے کہ تمام مذاہب کی بنیادی تعلیمات خوب پھلیں پھولیں۔ یہ افزائش مختلف طریقوں سے ہوتی ہے مگر ان کی جڑ ایک ہی ہے، اور وہ ہے زبان پر قابو پانا۔ اور زبان پر قابو یہ ہے کہ کسی بہت بڑے سبب کے بغیر اپنے مذہب کی بڑائی نہ جتلائی جائے یا دوسرے مذہب کی برائی نہ کی جائے۔ اگر تنقید کی واقعی کوئی ضروری وجہ ہے تو اسے نہایت شائستہ انداز میں کیا جانا چاہیے۔ لیکن دوسرے مذاہب کی عزت کی جانی چاہیے۔ ایسا کرنے سے اپنا مذہب ہی فیض پاتا ہے اور دوسرے مذاہب بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

جو کوئی بھی حد سے بڑھی ہوئی عقیدت کے ہاتھوں مجبور ہو کر سوچتا ہے کہ ‘میں اپنے مذہب کی شان بڑھاتا ہوں’، انجام کار وہ اپنے مذہب کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔ اسی وجہ سے مذاہب کے درمیان مکالمہ ضروری ہے۔ ہر شخص کو دوسرے مذاہب کے عقائد کو جاننا اور ان کا احترام کرنا چاہیے۔ دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، یہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ دوسروں کے مذاہب کے بارے میں جانتے ہوں۔

دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، یہ فرمودات اپنی تمام سلطنت میں کندہ کروا چکا ہے۔ تمام فرامین ہر جگہ نہیں لکھے گئے، کیونکہ میری سلطنت بہت وسیع ہے، لیکن زیادہ تر ہر جگہ لکھے گئے ہیں اور میں مزید بھی لکھواؤں گا۔ کئی موضوعات بار بار چھیڑے گئے ہیں کیونکہ وہ بہت میٹھے ہیں اور تاکہ لوگ ان پر عمل کرنے پر مائل ہوں۔ اگر لکھے گئے کچھ فرامین مکمل نہیں ہیں، تو وہ اس جگہ کی مناسبت ہے ہیں، یا عوام کی سہولت کے لیے ایسے نامکمل ہیں، یا یہ کاتب کی غلطی سے ہوا ہے۔

ہم نے شہنشاہ اشوک کے یہ فرامین پڑھے تو سوچ میں پڑ گئے کہ آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے عوام کی خدمت اور فلاح و بہبود کو ہی اپنا مقصد حیات بنا لینے والا یہ بادشاہ اپنے عوام کی دعاؤں کے باعث واقعی مالک ارض و سما کی بارگاہ میں پسندیدہ ٹھہرا ہو گا۔

Published on: Aug 13, 2018
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments