بلدیاتی ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم کی بھرپور واپسی؟


کراچی

ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پہلے سو دن میں خصوصاً مہنگائی جیسے عوامی معاملے پر خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھانے اور کراچی میں تجاوزات آپریشن کے خلاف ایک عوامی ردعمل سندھ میں ہونے والے ضمنی بلدیاتی انتخابات کے موقع پر سامنے آیا ہے یا کم از کم کراچی میں سیاسی ماہرین کی یہی رائے ہے۔

اتوار کے روز سندھ بھر کی 65 بلدیاتی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لیے پولنگ ہوئی جس میں مجموعی طورپر سندھ بھر میں پانچ لاکھ سے زائد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔

کراچی کے چھ اضلاع میں 24 نشستوں پر 184 امیدوار مدمقابل تھے۔ اب تک سامنے آنے والے نتائج اگرچہ متضاد ہیں تاہم غیرسرکاری نتائج کے مطابق ایم کیو ایم اب تک سب سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے۔

کراچی میں جولائی 2018 کے عام انتخابات میں سب سے بڑا دھچکا ایم کیو ایم کو لگا تھا اور اب تجزیہ کاروں کے خیال میں بلدیاتی نشستوں پر ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم کی کامیابی اہمیت رکھتی ہے۔

کئی حلقے اس کامیابی کی وجہ ایم کیو ایم کی عوامی سطح پر تنظیم سازی کو بھی کہتے ہیں۔ ڈاکٹر توصیف کے مطابق ضمنی بلدیاتی انتخابات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک تنظیم نہیں ہے اور اس کا عوام سے رابطہ نہیں، وہ ایک خاص ماحول میں تو فتح یاب ہو سکتی ہے مگر تنظیمی طور پر صفر ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ کامیابی اس لیے بھی اہم ہے کہ ایم کیو ایم تناؤ کا شکار ہے، ’ایم کیو ایم تضادات کا شکار ہے، تاہم یہ جماعت عوامی رابطوں کے معاملے میں اپنی تنظیم کو برقرار رکھ پائی ہے۔‘

ان کے خیال میں عوام سمجھتی ہے کہ تبدیلی ایم کیو ایم لا سکتی ہے۔

اس سوال پر کہ ان انتخابات میں تو ٹرن آؤٹ نہایت کم رہا۔ سینیئر صحافی ضیا الرحمان نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’جب یہ اعداد و شمار ملیں کہ ایم کیو ایم نے 22 میں سے دس نشستیں جیت لی ہیں تو یہ خود ایم کیو ایم کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ دوسرا یہ تاثر زائل ہوا کہ ایم کیو این کراچی میں سے ختم ہو گئی ہے۔‘

دوسری جانب وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی ضمنی انتخابات کے نتائج کو صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں کے انتخابات سے جوڑنا درست نہیں ہے، کیونکہ عام طور پر بلدیاتی انتخابات میں لوگ یہ دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں کہ ان کی روزمرہ کے مسائل کون حل کر سکتا ہے۔

صحافی احمد یوسف کے خیال میں ضمنی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی دراصل ایم کیو ایم کے اس الزام کو ایک بار پھر تقویت ملی ہے کہ جولائی میں ہونے والے عام انتخابات کم از کم کراچی کی حد تک شفاف نہیں تھے۔ لیکن کراچی کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہوئے احمد یوسف یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ’چونکہ لوکل گورنمنٹ کے پاس اختیارات تو ہیں نہیں، لہٰذا یہ کامیابی بھی علامتی ہی ہے۔‘

اسی بارے میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ بلدیاتی ضمنی انتخابات نے عام انتخابات کے نتائج پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔

انھوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ان انتخابات سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ کے بالخصوص شہری علاقوں میں ووٹرز نے ایم کیو ایم پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور یہ کہ ’سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیوایم کی مقبولیت کا منظر 24 جولائی سے پہلے والا ہے،آج کے نتائج نے بتایا کہ یہاں کا مینڈیٹ کس کے پاس ہے۔‘

کراچی

کراچی کی بلدیاتی نشستیں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور ایم کیوایم اراکین کی جانب سے خالی کی گئیں، فردوس شمیم نقوی، حمید الظفر، سلیم بلوچ، لیاقت آسکانی نے رکن سندھ اسمبلی بننے کے بعد اپنی نشستیں خالی کیں جبکہ جام عبدالکریم اور شاہنواز جدون نے بھی اسمبلی رکن بننے پر بلدیاتی نشستیں خالی کیں۔

ضمنی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی اپنی جگہ، مگر دوسری جانب جنوری میں صوبائی نشست کے لیے کراچی کے حلقے پی ایس چار میں ہونے والے ضمنی انتخابات ہی ثابت کریں گے کہ یہاں عوامی رائے اب کس سمت جا رہی ہے۔

اسی پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے تعلقات عامہ کے مرکزی رہنما اظہر لغاری نے کہا کہ بلدیاتی ضمنی انتخابات تو کل نشستوں کا صرف ڈیڑھ فیصد ہیں۔ اس لیے ان کا پاکستان تحریک انصاف پر کوئی فرق نہیں پڑتا، آئندہ برس ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی بھرپور طریقے سے کامیابی حاصل کرے گی۔

تحریک انصاف کی عوامی رابطوں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کراچی میں ان کی جماعت گراس روٹ لیول پر تنظیم سازی کر رہی ہے، ’ہماری ٹیمیں بن رہی ہیں، مگر اس پر کچھ وقت لگے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp