امریکا کا بڑھاپا اچھا گزرے گا


سوویت یونین کیوں ٹوٹا؟ اگر پاکستان کے مذہبی سیاسی و جہادی حلقوں کی دلیل تسلیم کر لی جائے تو ٹوٹنے کی وجہ افغانستان تھا۔ جہاں مجاہدین نے امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی قیادت میں سوویت یونین کی عسکری کمر توڑ کے سپرپاور والا دبدبہ خاک میں ملا دیا اور سوویت افواج کو دس برس بعد افغانستان سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ اگر سوویت یونین ٹوٹنے کے بارے میں مغربی نظریہ سازوں کی بات مان لی جائے تو ٹوٹنے کی وجہ یہ تھی کہ کیمونسٹ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس سے ہتھیاروں کی دوڑ ہار گیا، یوں سوویت یونین کا اقتصادی بھٹہ بیٹھ گیا اور وہ اپنے ہی بوجھ سے ٹوٹ گیا۔

 مگر امریکا کیوں نہیں ٹوٹا؟ آخر اس نے بھی تو بارہ برس ویتنام میں جنگ لڑی اور بے نیل و نرام واپس ہوا، پھر کویت کی آزادی کی جنگ کی قیادت کی اور عراق میں صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹا مگر سات برس بعد ایک طاقتور عراق کو ایک کمزور عراق میں بدل کر واپس لوٹا اور ترکے میں داعش کو چھوڑا۔ اور اب وہ شام اور افغانستان میں حسبِ منشا نتائج و اہداف حاصل کیے بغیر اسی لاحاصل عجلت میں واپس جا رہا ہے جس کا مظاہرہ اس نے تینتالیس برس قبل ویتنام چھوڑتے وقت کیا۔

 ضروری تو نہیں کہ ہر سپرپاور سوویت یونین کی طرح ٹوٹتی نظر بھی آئے۔ زیادہ تر سپر پاورز عروج پر پہنچنے کے بعد اندرونی بوجھ اور بیرونی زوالیہ عوامل کے سبب آہستہ آہستہ گھلتی ہیں اور اگلے سو پچاس برس میں اپنے ہی شاندار ماضی کا سایہ بن جاتی ہیں۔ رومن ایمپائر ایک دن میں ختم نہیں ہوئی تھی۔ اسے سکڑتے سکڑتے بھی ڈھائی سو برس لگے۔ سلطنتِ عباسیہ کو چھٹے خلیفہ مامون الرشید کے بعد بھی مکمل انہدام میں چار سو برس لگے، اس دوران مزید تیس عباسی خلفا تبدیل ہوئے حتی کہ آخری عباسی خلیفہ المستعصم منگولوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔

 عثمانی سلطنت ویسے تو انیسویں صدی کے وسط میں ہی بیمار ہو گئی تھی تاہم اسے اتاترک اور عثمانی مقبوضات اور پہلی عالمی جنگ کے بوجھ کے سبب بکھرنے تک سو برس لگے۔ مغل سلطنت اورنگ زیب کے بعد بھی ڈیڑھ سو برس برقرار رہی اور پھر لال قلعے سے بھی مٹ گئی۔ امریکا کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ کہاں انیس سو اکیانوے میں سوویت یونین کے راتوں رات گھلنے کے بعد امریکا واحد عالمی سپر پاور بن گیا کہ جسے یہی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنے اس نئے کردار کو کیسے نبھائے۔

 نیو ورلڈ آرڈر کی اصطلاح وجود میں آ گئی۔ فرانسس فوکو یاما نے تاریخ کے خاتمے کی پیش گوئی کر دی۔ اکیسویں صدی کو امریکی راج کی صدی قرار دے دیا گیا۔ اور کہاں اکیسویں صدی کے اٹھارویں برس میں یہ حالات ہیں کہ امریکا اپنے بیرونی اسٹرٹیجک اثاثوں کے کمبل سے جان چھڑوا کے گھر واپسی کی عجلت میں ہے اور امریکا کے بیرونی مفادات کی دکان پر یہ بورڈ لگا دیا گیا ہے کہ مالک کو اچانک کاروبار سمیٹنا پڑ رہا ہے لہذا بچی ہوئی مصنوعات اور سامان پچاس فیصد سیل پر دستیاب ہے۔

 ان مصنوعات میں شام بھی شامل ہے کہ جس کی بولی لگانے والوں میں روس، ایران، ترکی، اسرائیل اور سعودی عرب آگے آگے ہیں۔ افغانستان کی بولی لگانے والوں میں پاکستان، بھارت، چین، روس، ایران صفِ اول میں ہیں۔ طالبان کا نام میں نے بولی لگانے والوں میں اس لیے شامل نہیں کیا کیونکہ علاقائی بولی بازوں کے درمیان امریکی افغان ترکے کے لیے چھینا جھپٹی کا جو اگلا دور شروع ہونے والا ہے اس میں طالبان ایک فیصلہ کن عنصر نہیں ہوں گے بلکہ بطور ہتھیار استعمال ہوں گے۔

 یہ تاثر درست نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ضرورت سے زیادہ بچھا ہوا عالمی امریکی قالین تیزی سے لپیٹ رہے ہیں۔ ان سے پہلے اوباما انتظامیہ اس کام کا آغاز کرچکی تھی جب اس نے اپنی پیشرو بش انتظامیہ کے عراق اور افغانستان میں پھیلائے ہوئے برداشت سے باہر جھمیلوں کو سیمٹنا شروع کر دیا تھا۔ اوباما دور میں عراق سے امریکی فوجوں کا انخلا ہوا پھر افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ امریکی فوجیوں کو کم کرتے کرتے تیس ہزار پر لایا گیا۔

 اب ان کی تعداد چودہ ہزار ہے اور اگلے چند ماہ میں سات ہزار رہ جائے گی۔ شام سے دو ہزار امریکی فوجیوں کی سو دن میں واپسی کے اچانک اعلان اور افغانستان سے جزوی واپسی کے منصوبے پر ٹرمپ کو اپنی انتظامیہ کے اندر اور بیرونی اتحادیوں کی سطح پر سخت مزاحمت اور لے دے کا سامنا ہے۔ حالانکہ ٹرمپ کی جگہ کوئی بھی امریکی صدر ہوتا یہی فیصلے ہونے تھے۔ یہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ امریکن مائنڈ کا فیصلہ ہے۔ بس اتنا ہے کہ کوئی اور صدر ٹرمپ کی نسبت یہی فیصلے شاید ذرا سلیقے سے کر لیتا۔

 امریکن مائنڈ کیا ہے؟ امریکا اور باقی دنیا کے درمیان دو بڑے سمندر (بحرالکاہل اوربحر اوقیانوس) حائل ہیں۔ جب سے امریکی ریاست ڈھائی سو برس قبل وجود میں آئی اس کے دو ہی بنیادی مفادات رہے۔ اول ہمسایہ ملک کینیڈا اور میکسیکو اس کے لیے مسائل پیدا نہ کریں اور دور کے ہمسائے یعنی جنوبی امریکا کے ممالک بڑا بھائی تسلیم کرتے رہیں۔ دوسرا مفاد یہ ہے کہ امریکی مصنوعات باقی دنیا میں فروخت ہوں اور باقی دنیا امریکا کی بنیادی صنعتی ضروریات اپنے خام مال سے بلا رکاوٹ پوری کرتی رہے۔

 اس ضرورت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے امریکا کو اہم مقامات اور خطوں میں نگراں چوکیاں بنانے کی ضرورت پڑی۔ کہیں براہ ِراست تو کہیں بیرونی دوستوں کی مدد سے امریکی اقتصادی اور اقتصادیات کے بطن سے پھوٹنے والے سیاسی مفادات کا تحفظ کیا جاتا رہا۔ آج بھی امریکا کے یہی دو بنیادی مفادات ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی دنیا میں مشرقِ وسطیٰ امریکا کے لیے اس لیے اہم نہیں تھا کہ اسے اسرائیل کا وجود عزیز ہے بلکہ تیل کی مسلسل رسد کو بحفاظت اور یقینی بنانے کے لیے طفیلی حکومتوں اور اسرائیل کی شکل میں ایک قابلِ اعتماد چوکیدار کی ضرورت تھی۔

 لہذا پچھلے پچھتر برس میں مشرقِ وسطیٰ کی جو شکل بنی وہ امریکا کے تیل مفادات کی جغرافیائی تصویر ہے۔ گزرے اکتوبر میں امریکا اپنی تاریخ میں پہلی بار تیل کی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہو چکا ہے بلکہ دو لاکھ بیرل یومیہ تیل برآمد بھی کر رہا ہے۔ لہذا آنے والے دنوں میں مشرقِ وسطیٰ میں امریکی دلچسپی رفتہ رفتہ اتنی ہی رہ جائے گی جو امریکا کے تجارتی جغرافیائی مفادات کے لیے ضروری ہو۔ اسرائیل چونکہ علاقے کی غالب و بالغ قوت بن چکا ہے لہذا امریکا کو اس خطے میں براہِ راست مستقل فوجی موجودگی کی زیادہ ضرورت نہیں۔

جہاں تک افغانستان کا معاملہ ہے تو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کی دلچسپی محض اتنی ہے کہ افغانستان دوبارہ ایسی دہشت گردی کا اڈہ نہ بنے جو امریکی اندرونی و بیرونی مفادات کے لیے براہِ راست خطرہ ہو۔ یہی دلچسپی چین اور روس کو بھی لاحق ہے۔ لہذا امریکا اگر افغانستان میں نہ بھی ہو تو اس کی صحت پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑتا۔ پاکستان کی افغان سٹریجک ڈیپتھ کی خواہش علاقائی طاقتوں کے لیے بھلے دردِ سر ہو مگر امریکا کو اس خواہش سے اب فرق نہیں پڑتا۔

آزاد تجارت کا فلسفہ بھی جب تک امریکا کے مفاد میں تھا تب تک عزیز تھا۔ مگر اب چین آزاد تجارت کی نظریاتی مملکت کا نیا خلیفہ بن چکا ہے۔ چنانچہ امریکا کی دلچسپی محض یہ ہے کہ اس کی مصنوعات فروخت ہوتی رہیں، اندرونِ ملک بے روزگاری بحران کی شکل نہ اختیار کرے اور بیرونی دنیا بالخصوص چین سے اس کا تجارتی خسارہ قابلِ برداشت حد میں رہے۔ جہاں تک چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کو ایک حد میں رکھنے کا معاملہ ہے تو اس مقصد کے حصول کے لیے امریکا بحرالکاہل اور جنوبی چین میں اپنی علامتی فوجی موجودگی رکھے گا مگر چین کو اسٹرٹیجک اعتبار سے چیک کرنے کا کام ویتنام، جاپان، تائیوان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا اپنے اپنے علاقائی و جغرافیائی مفادات کے تناظر میں خود ہی کر لیں گے۔

امریکا پیچھے رہ کر ان کی جو مدد کر سکتا ہے کرے گا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اور کثیر المرکز دنیا کے ابھرنے کے نتیجے میں یورپ کو امریکا کی اور امریکا کو یورپ کی وہ ضرورت نہیں رہی جو کچھ عرصے پہلے تک تھی۔ لہذا یورپ سے سیاسی و اقتصادی تعلقات تو قائم رہیں گے کہ جن کی بنیاد مشترکہ اقدار و مفادات پر ہے مگر لو افئیر والی کہانی تمام ہوئی۔ لہذا امریکا بدلی ہوئی دنیا میں ٹرمپ کی بدسلیقگی کے باوجود خود کو جس سلیقے سے ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس کے سبب امید ہے کہ ماضی کی سپر پاورز کے برعکس امریکا کا بڑھاپا اچھا ہی گزرے گا۔ البتہ بڑھکیں مارنے کی عادت برقرار رہے گی۔ اب اتنا تو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).