افغان مہاجرین اور غیر ذمہ دارانہ بیان بازی


\"mujahid

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے بارے میں متضاد اور افسوسناک بیانات کا سلسلہ جاری ہے لیکن حکومت اس معاملہ پر کوئی واضح حکمت عملی تیار کرنے اور ایک طے شدہ منصوبہ کے تحت پناہ گزینوں کی واپسی کا پروگرام بنانے میں ناکام رہی ہے۔ اس لئے بعض اوقات یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ حکومت اس مسئلہ کو سمجھنے اور حل کرنے کی بجائے انسانوں کے ایک کمزور اور بے بس گروہ کی صورتحال کو سیاسی مقاصد کےلئے استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے تا کہ افغانستان کی حکومت پر دباؤ میں اضافہ کیا جا سکے۔ یہ بات اہم ہے کہ افغان مہاجرین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اس مسئلہ کے سارے سماجی ، معاشی اور سیاسی پہلوؤں کو پیش نظر رکھا جائے اور اس تناظر میں ٹھوس اور قابل عمل پالیسی اختیار کی جائے۔ معاشرے کے ایک مجبور طبقے پر دہشتگردی میں ملوث ہونے سے لے کر ملک کی معیشت پر بوجھ بننے تک کے لایعنی اور بے بنیاد الزامات لگانے سے نہ تو مسئلہ حل ہو گا اور باہمی اعتماد میں بھی کمی آئے گی۔

کل ہی وزیراعظم نے ملک میں قانونی طور سے مقیم افغان مہاجرین کے قیام میں اس سال کے آخر تک توسیع دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ فیصلہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی کے دورہ پاکستان کے بعد کیا گیا ہے۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے درخواست کی تھی کہ ان مہاجرین کو مزید کچھ مدت کےلئے پاکستان میں رہنے کی اجازت دی جائے تا کہ اقوام متحدہ کے نمائندے افغان حکومت کے ساتھ مل کر مہاجرین کی واپسی کے انتظامات کر سکیں۔ اس وقت پاکستان میں 20 سے 30 لاکھ کے درمیان افغان باشندے پناہ گزین کے طور پر قیام پذیر ہیں۔ ان میں سے اکثر خیبر پختونخوا ، قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں مہاجر کیمپوں میں رہتے ہیں۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے عام طور سے ان کیمپوں میں کسمپرسی کا عالم ہوتا ہے اور بنیادی ضروریات بھی فراہم نہیں ہوتیں۔ اکثر پناہ گزین اپنے طور پر محنت مزدوری کر کے وسائل حاصل کرتے ہیں تاکہ اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں۔

\"refugees-camp\"

ان میں سے اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 15 لاکھ کے لگ بھگ رجسٹرڈ مہاجرین ہیں جن کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہے۔ حکومت پاکستان جب افغان مہاجرین کی واپسی کی بات کرتی ہے یا ان کے قیام کی مدت میں اضافہ کیا جاتا ہے تو عام طور سے انہی مہاجرین کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن افغانستان کے ساتھ سرحدوں پر مناسب کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں ایسے افغان باشندے بھی جنگ سے محفوظ رہنے کےلئے پاکستان میں مقیم ہیں جن کا باقاعدہ اندراج نہیں ہے۔ پاکستان کی حکومت کو ان لوگوں کے بارے میں کوئی معلومات بھی حاصل نہیں ہیں۔ اس لئے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک جب اس تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ افغان مہاجرین دہشت گردی کا سبب بن رہے ہیں یا ان کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے تو وہ انہی غیر رجسٹرڈ شدہ مہاجرین کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس قسم کی بیان بازی بہرطور انسانوں کے ایک بہت بڑے گروپ کے بارے میں کی جاتی ہے، جن میں سے اکثریت بے گناہ اور مظلوم لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ جنگ سے جان بچانے یا روزگار کے حصول کےلئے اپنا وطن چھوڑ کر پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں بطور گروپ الزام تراشی کا رویہ کسی ذمہ دار شخصیت یا حکومت کو زیب نہیں دیتا۔

پاکستان کی طرف سے عام طور سے اس وقت افغان پناہ گزینوں کے بارے میں تشویش اور بیان بازی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جب افغانستان کے ساتھ معاملات میں مشکلات پیش آ رہی ہوں۔ ایسی صورت میں کابل حکومت کو دباؤ میں رکھنے کےلئے یہ جتانا ضروری سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان نے کثیر تعداد میں اس کے شہریوں کو پناہ دی ہوئی ہے۔ لیکن ایسے بیان دیتے ہوئے یہ خیال رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ ان کے ذریعے بے گناہ لوگوں کے گروہ کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے۔ جنگ کے ستائے ہوئے دربدر ہونے والے یہ لوگ انسانی ہمدردی اور توجہ کے مستحق ہیں۔ ان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے افغان حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے تعصب اور امتیازی سلوک کی صورتحال ضرور پیدا ہو سکتی ہے جو انتشار اور مشکلات کا شکار پاکستانی معاشرے کےلئے عام طور سے کوئی خوشگوار بات نہیں ہے۔ اس بات کا الزام بھی مہاجرین کو دینا غلط ہے کہ وہ رجسٹریشن کے بغیر ملک میں کیوں مقیم ہیں۔ یہ ذمہ داری بہرحال حکومت اور اس کی انتظامی مشینری پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں آنے والے غیر ملکیوں کی رجسٹریشن کا مناسب انتظام کرے اور اسے ہر وقت یہ علم ہو کہ کون سے لوگ کہاں پر مقیم ہیں۔ ایسی سہولتیں نہ ہونے کی صورت میں نئے آنے والوں کےلئے مناسب قانونی کارروائی پوری کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

صورتحال کی پیچیدگی کے باوجود گزشتہ ہفتے وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے افغان مہاجرین کی واپسی پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان اب ان لوگوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ پاکستانی حکام کی طرف سے یہ بات بھی کہی جاتی رہی ہے کہ افغانستان سے آنے والے دہشت گرد افغان کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں اور ملک میں تخریب کاری میں ملوث ہوتے ہیں۔ لیکن تجزیہ نگاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کبھی دہشت گردی کے کسی واقعہ میں افغان شہریوں کی شرکت کا ثبوت فراہم نہیں کر سکی ہے۔ بلکہ اکثر سانحات میں عام طور سے پاکستانی شہری ہی ملوث ہوتے ہیں۔ ان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے متعلق وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی کے بعد افغانستان بھاگ گئے تھے۔ یہ ماہرین اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں قبائلی علاقوں کے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے تھے۔ ان میں سے بہت بڑی تعداد پاکستان میں ہی مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی تھی لیکن 5 لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی شہری سرحد پار کر کے افغانستان کے علاقوں میں چلے گئے تھے۔ اس لئے اگر مہاجرین کی واپسی کے کسی پروگرام پر اتفاق رائے ہوتا ہے تو پاکستان کو بھی اپنے علاقوں سے بے گھر ہونے والے لوگوں کو واپس بلا کر ان کی آباد کاری کا انتظام کرنا پڑے گا۔

افغان پناہ گزینوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے قبائلی علاقہ جات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے آج ایک بیان میں واضح کیا کہ جو بھی ہو اب پاکستان ان مہاجرین کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ انہیں بہرصورت واپس جانا ہی ہو گا۔ حیرت ہے کہ وزیر موصوف کو وزیراعظم کی طرف سے مہاجرین کے قیام کی مدت میں 6 ماہ کی توسیع کے فیصلہ کے ایک روز بعد ہی اس قسم کا بیان دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ عبدالقادر بلوچ نے دعویٰ کیا کہ ہم نے تین دہائیوں تک میزبانی کی ہے لیکن اب ہم مزید یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی وجہ سے 10 لاکھ پاکستانی شہری روزگار سے محروم ہیں۔ انہوں نے خیبر پختونخوا حکومت کے اس موقف کی بھی تائید کی کہ افغان مہاجرین ملک کی معیشت و ثقافت کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور جرائم میں اضافہ کا سبب بھی بنتے ہیں۔ یہ بیان بھی اعداد و شمار اور دلائل کے بغیر جاری کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں مقیم افغان مہاجرین جو کام کرتے ہیں، پاکستانی نوجوان ان شعبوں میں کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایک طرف 30 برس تک میزبانی کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو دوسری طرف چند افراد کے غلط افعال کی وجہ سے پورے گروپ کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ اگر بعض افغان باشندے ملک میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں تو دوسری مجرموں کی طرح ان کی بھی گرفت کی جا سکتی ہے اور مروجہ قوانین کے تحت سزائیں دی جاسکتی  ہیں۔ اس معاملہ کو افغانستان کے ساتھ تعلقات ، بارڈر کے تنازعہ اور افغان مہاجرین کی صورتحال کے ساتھ ملانا درست رویہ نہیں ہے۔

ایک طرف حکومت کے نمائندے افغان مہاجرین سے ’’نجات‘‘ حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف وفاقی حکومت کی ایک حلیف پارٹی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے ایک افغان اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا پر افغانیوں کا بھی پوری طرح حق ہے اور کسی کو اپنے ہی علاقے میں ہراساں کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان ہے جس میں قومی اسمبلی کا ایک رکن اور ایک پارٹی کا لیڈر ملک کے ایک حصے کو دوسرے ملک کے شہریوں کی ملکیت قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس قسم کے بیان سیاسی ضرورتیں پوری کرنے اور پوری صورتحال سے ناواقفیت کی بنا پر جاری کئے جاتے ہیں لیکن ان سے تنازعات اور الجھنیں جنم لیتی ہیں۔ اس لئے خواہ حکومت کے نمائندے ہوں یا ان کے حامی ۔۔۔  افغان مہاجرین کے بارے میں ان کا جو بھی موقف ہو، انہیں یہ معاملات اخباری بیانات میں طے کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے حکومت پر زور دینا چاہئے کہ وہ اس اہم مسئلہ پر فوری طور سے واضح اور ٹھوس پالیسی اختیار کرے اور اس پر عملدرآمد کا آغاز کیا جائے۔

افغان مہاجرین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھلے ان لوگوں کو تکنیکی لحاظ سے افغانستان کا شہری کہا جائے لیکن یہ لوگ گزشتہ تیس پینتیس برس سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ ان کی ایک نسل یہاں پر بوڑھی ہو کر اب اس جہان فانی سے کوچ کر رہی ہے۔ ایک نسل یہاں پروان چڑھ کر مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہی ہے اور ایک نسل پاکستان میں ہی پیدا ہوئی ہے۔ حکومت پاکستان کے کنٹرول اور اپنے قوانین پر عملدرآمد کے ناقص انتظام اور ملک میں پائی جانے والی بدعنوانی کی وجہ سے لاتعداد افغان شہریوں نے پاکستانی شناختی کارڈ بھی حاصل کر لئے ہیں اور ان میں سے بعض لوگ پاکستانی پاسپورٹ پر سفر بھی کرتے ہیں۔ اس لئے افغان مہاجرین کی واپسی کا منصوبہ بناتے ہوئے ان تمام امور کو پیش نظر رکھ کر ان کا حل تلاش کرنا بھی ضروری ہو گا۔

حکومت کےلئے یہ ضروری ہے کہ ان نوجوان افغان پناہ گزینوں کو جو افغان سے زیادہ پاکستانی ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس ملک کا شہری تسلیم کر کے انہیں باقاعدہ شناختی کارڈ جاری کئے جائیں۔ باقی ماندہ لوگوں کو صورتحال کی روشنی میں مختلف اقسام میں تقسیم کیا جائے۔ تب ہی اقوام متحدہ اور افغان حکومت سے ان لوگوں کی واپسی کے کسی ٹھوس منصوبے پر عملدرآمد کےلئے کارآمد مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ یک طرفہ طور سے 30 لاکھ لوگوں کو سیاسی کھیل میں مہرے کے طور پر استعمال کرنے سے پیچیدگیاں بھی پیدا ہوں گی اور مسئلہ بھی آسانی سے حل نہیں ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments