یہ چور ہیں،انہوں نے ملک لوٹا ہے!


بابا بخشو بھی آج بہت خوش تھا۔ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ آنکھوں میں نفرت،انتقام،ہٹ دھرمی،تندی،سختی اور سفاکی کی ملی جلی چمک تھی۔ وہ بھی ہم سب کے ساتھ ان سیکڑوں لوگوں میں شامل تھا جو سڑک کے دونوں طرف کھڑے نواز شریف کے مختصر قافلے کو اڈیالہ جیل جاتا دیکھ رہے تھے۔ اکثر ن لیگ کے حامی تھے جو نواز شریف کی سزا کو سراسر انتقامی کارروائی اور نہایت مضحکہ خیز قرار دے رہے تھے اور کچھ بابا بخشو جیسے خدائی فوجدار بھی تھے جن کے دل و دماغ میں یہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ نواز اور زرداری نے مل کر اس ملک اور عوام کو بری طرح لوٹا ہے۔ وہ عمران خان کی زبان بولتے ہوئے انہیں سب شتم اور برہنہ گالیوں سے نواز کر دل کی بھڑاس نکال رہا تھا۔ آس پاس کھڑے لوگ اس کی باتوں پر ملا جلا ردِ عمل ظاہر کر رہے تھے مگر اس کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی اس سے بحث مباحثہ کرنا کارِ فضول سمجھتا تھا کیونکہ اس کا رویہ اور طرزِ عمل ہمیشہ کھسکے ہوئے اور نیم پاگل سے لوگوں کی طرح کا ہوتا تھا۔

نواز شریف کا قافلہ گزر گیا اور جگہ جگہ جمع ہونے والے لوگوں کی بھیڑ چھٹنے لگی تو میں بابا بخشو کے پاس ایک کرسی پر آکر بیٹھ گیا اور اسے چائے کی پیشکش کی جو اس نے فوراً ہی قبول کر لی۔ بابا بخشو پچاس کے پیٹے میں ہے اور میں اسے گذشتہ کئی سالوں سے اڈیالہ روڈ کے چھوٹے چائے خانوں، تھڑوں اور ہوٹلوں کےآس پاس منڈلاتے دیکھتا ہوں۔ سب اس کی دماغی کیفیت کی وجہ سے اس سے ہمدردی کرتے ہیں اور چائے پانی پوچھنے کے علاوہ حسب استطاعت اس کی مالی مدد بھی کرتے رہتے ہیں۔ میں نے بابا بخشو کی بے پناہ خوشی کو مہمیز دینے کے لیے پوچھا کہ بابا نواز شریف نے تمہارا کتنا مال چوری کیا ہے؟ اس غیر متوقع سوال پر وہ سٹپٹایا مگر فوراً ہی عمران کی طرح یو ٹرن لے کر سنبھل کر جواب دیا کہ اس نے سارے ملک کو لوٹا اور میں بھی ملک کا ایک باشندہ ہوں۔ میں نے پوچھا تم روزانہ کتنا کما لیتے ہو جسے نواز شریف لوٹ لیتا تھا اور اب تو وہ ڈیڑھ دو سال سے حکومت میں بھی نہیں ہے۔ زیادہ عرصہ جیل میں گزرتا ہے، تم تو روزانہ اتنے پیسے بچا لیتے ہو گے جو ہر روز نواز شریف چوری کر لیتا تھا؟ اس پر بابا بخشو گرم چائے کی چسکی لے کر آنکھیں نیم مند کر گویا ہوا کہ ہم تو فقیر لوگ ہیں، ہم سے کوئی کیا لوٹے گا؟ میں تو ملک کے عوام کی بات کر رہا ہوں جن کے اربوں روپے یہ دونوں ٹھگ روزانہ لوٹ لیتے تھے۔

بابا بخشو تو چائے پی کر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گیا مگر میں ان لوگوں کے بارے میں غور کرنے لگا جو میرے حلقہء احباب میں ہیں اور بابا بخشو کی طرح سال ہا سال سے بے عملی کی تصویر بنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہر وقت نظام اور نواز شریف کو کوستے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی کئی نسلیں سستی اور کاہلی کی داستانیں سناتی ہیں۔ فی یوم کبھی چند روپے بھی نہیں کمائے مگر منہ بھر کے گالیاں نواز اور زرداری کو دیتے ہیں۔ یہ لوگ عمران خان کی طرح بات تو علامہ اقبال کی کرتے ہیں مگر اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے انہیں موت پڑتی ہے کہ جس میں اقبال نے کہا تھا

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

افسوس صد افسوس کہ وہ لوگ بھی نواز زرداری پر لوٹ مار کا الزام لگاتے ہیں جن کی کئی نسلیں بیکاری اور بے عملی کی عبرت انگیز مثالیں بن چکی ہیں۔ جب میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ اپنے حالات بدلنے کی ہرگز کوشش نہیں کروں گا تو حکومت مشرف کی ہو، زرداری کی ہو یا نواز شریف کی، میرے حالات کبھی نہیں بدلیں گے۔ حکومتیں عوام کو نہیں عوام حکومت اور ملک کو بدلتے ہیں۔

کوششیں کرنے سے حالات بدل جاتے ہیں
خود بگاڑی ہوئی تقدیر کا شکوہ نہ کرو

اس صورت حال کا دوسرا رخ اس سےبھی زیادہ دلچسپ مگر فکر انگیز ہے۔ میں نے سیکڑوں نہیں ہزاروں لوگوں کو گذشتہ دس بارہ سال میں کرائے کے مکان سے اپنے گھر میں، سائیکل سے گاڑی میں اور کچی آبادی سے بحریہ ٹاؤن یا ڈی ایچ اے جیسے پوش اور مہنگے رہائشی علاقوں میں منتقل ہوتے دیکھا ہے۔ ہمارا نفسیاتی مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر امیر آدمی پر” ہذا من فضل ربی” یعنی حرام کی کمائی کا فتویٰ لگا کر خود بے عملی کی بکل مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے جلتے کڑھتے رہتے ہیں کہ یہ تو کل تک پیدل پھرتا رہتا تھا آج کروڑ پتی بن گیا ہے۔ فلاں تو بیک بینچر ہوا کرتا تھا آج دس فیکٹریوں کا مالک بن بیٹھا ہے۔ جو لوگ دن رات ایک کرکے زندگی میں آگے بڑھے ہیں اور انتہائی نامساعد حالات میں بھی حوصلہ نہیں ہارے، ان کا راستہ کوئی زرداری، نواز نہیں روک سکا مگر جنہوں نے ہر حال میں ہاتھ پاؤں توڑ کر نظام، حکومت اور نواز زرداری کو کوسنے دینے کا وطیرہ اپنایا، وہ عمران خان کی حکومت میں بھی ایسے ہی بیکار بیٹھ کر نواز زرداری یا اپنے نصیبوں کو رو رہے ہیں۔ ڈیڑھ سال ہو چکے ہیں نواز شریف کی معزولی کو میں ملک اور ایسے شکوہ سنج لوگوں کے حالات کو بد سے بد تر دیکھ رہا ہوں۔ اس لیے کہ ہم نے محنت پیہم اور جہد مسلسل کے راستے کو چھوڑ کر نواز زرداری کو چور چور ڈاکو ڈاکو کہنے کا چلن اپنا لیا ہے۔ نواز شریف تو اب سات سال کے لیے جیل چلا گیا اس کے دور میں ہونے والی روزانہ تین ارب روپے کی کرپشن تو اب رک جانا چاہیے۔ نواز زرداری کی لوٹی ہوئی دولت کو حسب وعدہ واپس لا کر ملک میں دودھ و شہد کی نہریں بہانے میں اب کتنی دیر ہے؟ بابا بخشو کی طرح نواز زرداری کو گالیاں نہ دیں۔ اپنے حالات بدلنے کے لیے خود کمر بستہ ہو جائیں۔

بقا کی فکر کرو خود ہی زندگی کے لیے
زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کے لیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).