ملتان کی حکمرانی قبول نہیں، بہاولپور صوبہ بحال کیا جائے!


صوبائی وزیرخوراک سمیع اﷲ چودھری سے ملاقات ہوئی، جس راقم الحروف نے ان کی وزرات سے جڑے ایشوز کے علاوہ خاص طور پر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی طرف سے جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کی صورت میں دارالحکومت ملتان یا بہاولپور کے ایشو پرجاری ٹکراؤ کی صورتحال پر بھی سوال کیا کہ اس کو کس طرح طے کیا جائے گا۔ دونوں اطراف سے سخت موقف ہے۔ راقم الحروف نے عثمان بزدار کے وزیراعلی ہاوس تک پہنچنے کے بارے میں بھی پوچھا اور ان کی بیان کردہ کہانی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی کرتا چلوں کہ جب تحریک انصاف وزیراعلی پنجاب کی تلاش میں نکلی ہوئی تھی تو میرے علم میں یہ بات تھی کہ جن چار ارکان اسمبلی کے نام فائنل ہوئے ہیں، ان میں سمیع اﷲ چودھری کا نام بھی شامل ہے۔ سمیع اﷲ چودھری جو کہ سرائیکی زبان اپنی مادری زبان میں بول رہے تھے جو کہ اس بات کا پیغام تھا کہ یہاں کے لوگوں میں زبان کی بنیاد پر فاصلے نہیں ہیں بلکہ وہ مل جل کر رہنا چاہتے ہیں۔ سمیع اﷲ چودھری کے باقی جواب بھی خاص اہمیت کے حامل تھے لیکن میرے سوال کہ جنوبی پنجاب کا دارالحکومت ملتان ہوگا یا بہاولپور یا پھر جیسے جنوبی پنجاب صوبہ کیلئے بنائی گئی کونسل کے چیرمین طاہربشیر چیمہ نے کہا ہے کہ لودھران بھی دارلحکومت ہو سکتا ہے تو سمیع اﷲ چودھری نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ خضر بھائی دارلحکومت بہاولپور ہی ہو گا بصورت دیگر ہم بہاولپور صوبہ بحالی کی تحریک چلائیں گے۔ بہاولپور صوبہ ہمارا خواب ہے۔

ان کا یہ جواب اس لیے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ ڈیڈ لاک کی نشاندہی ہو رہی ہے۔ ملتانی لیڈرشپ ملتان کے علاوہ کوئی آپشن لینے پر تیار نہیں ہے جبکہ بہاولپوری وزرات نہیں کوئی بھی پوزیشن ہو، بہاولپور کو دارلحکومت کے علاوہ نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ وزیرخوراک سمیع اﷲ چودھری سے خاصی گفتگو ہوئی لیکن اس پر پھر بات کریں گے۔ فی الحال قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں جو قوم کے نمائندوں کو ایک بار پھر اس بات کا احساس جاگ پڑا ہے کہ پنجاب کو تقسیم کر کے جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ بحال کرنے کی ازحد ضرورت ہے، اس پر بات کرتے ہیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں جیسے ہی نواز لیگی راہنما اوراپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے حکومت کو آفر کیا کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ بحال کرنے کیلئے اپوزیشن تعاون کرنے کیلئے تیار ہے۔ نیب کے ملزم شہازشریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب صوبہ اور بہاولپور صوبہ بحالی کیلئے پرائیوٹ بل لائیں گے۔ ادھرحکومتی بنچوں پر شہبازشریف کی اس آفر کا خیر مقدم کرنے کی بجائے حکومت کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ تین اضلاع مشتمل بہاولپور صوبہ بن جائے اور دو ڈویثرن پر الگ جنوبی پنجاب صوبہ بن جائے۔ شہبازشریف کی آفر کے بعد کی صورتحال میں پیپلزپارٹی سیاسی میدان میں کہاں پیچھے رہنے والی تھی، انہوں نے بھی تحریک انصاف کی حکومت کو پیچھے ہٹتے د یکھ کر باونسر یوں مارا کہ حکومت سرائیکی صوبہ بنانے کیلئے آگے بڑھے، بغیر کوئی کمیٹی قائم کیے پیپلزپارٹی باقی ساری اپوزیشن کے ہمراہ سرائیکی صوبہ بنانے کیلئے ساتھ دیں گے۔

ادھر بہاولپور کے بزرگ سیاستدان اور سابق وفاقی وزیر فاروق اعظم ملک نے جب بہاولپور صوبہ کے بارے میں سب گول ہے جیسی صورتحال دیکھی تو انہوں نے فلور آف دی ہاوس پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ بہاولپور کے نواب اور عوام نے پاکستان کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ بہاولپور کے نواب صاحب نے ہیڈ پلہ، ہیڈ سیلمانکی اور ہیڈ پنجند بنایا، جن سے آپ لوگ اب لاکھوں کروڑوں کا فائدہ حاصل کر رہے ہیں، پھر لوگوں کو آباد کیا۔ ہم ایک دھرتی کے لوگ ہیں۔ ہماری رشتہ داریاں ہیں، ہماری قبریں سانجھی ہیں، بہاولپور میں آباد کار، پٹھان اور اردو اسپکینگ سب ایک ساتھ رہتے ہیں اور بہاولپور جنت ہے۔ میں بہاولپور صوبہ کا وارث ہوں، اسیٹیک ہولڈر سے بات کرنی پڑی گی، آپ اس کی ووٹنگ کروا لیں، جمہوریت کے آگے سرتسلم خم ہے لیکن بہاولپورکے عوام کے فیصلہ کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔

بہاولپور صوبہ بحالی کیلئے لوگوں نے جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ بہاولپور صوبہ کو پیپلزپارٹی کے علاوہ ساری جماعتوں نے اپنے منشور میں رکھا ہوا تھا۔ نواب آف بہاولپور نے پاکستان کیلئے سب کچھ قربان کیا اور پھر ڈاکٹر علامہ اقبال اور علامہ خاکسار جیسے عظیم لوگ ان کے وظیفہ خوار تھے۔ ہماری خدمات کو نظرانداز نہ کیجائے۔ ہم جنوبی پنجاب میں شامل نہیں ہونا چاہتے ہیں۔ قائد اعظم نے نواب آف بہاولپور کو محسن پاکستان کا خطاب دیا تھا۔ بہاولپور پہلی ریاست تھی جس نے پاکستان کو تسلیم کیا، پاکستان کو تنخواہیں دیں، پاکستان کو اسلحہ دیا، پاکستان کو فوج دی، حتی کہ قائد اعظم جس گھر میں رہ رہے تھے نواب صاحب نے وہ گھر ان کی بہن کے نام کردیا، یہ تھیں ہماری قربانیاں اس کے بعد ہمیں ملا کیا، 1951 میں ہماری اسمبلی وجود میں آئی نواب صاحب نے اپنے اختیارات چھوڑ دیئے اور وہ اسمبلی  1954 تک چلی۔ ہمارا وزیراعلی تھا۔ 49 ارکان اسمبلی کی تعداد تھی، جب نواب صاحب سے کہا گیا کہ ون یونٹ پاکستان کے مفاد میں ہے تو نواب صاحب نے کہا کہ پاکستان کیلئے جو کرنا ہے، کرتے جائیں، ہم ساتھ ہیں۔

ادھر جب یحی خان نے کہا ون یونٹ ختم کر رہا ہوں تو وعدہ یہ تھا کہ بہاولپور اپنی اصلی حالت میں آئے گا، ہمیں واپس صوبہ نہیں بنایا گیا، ایسا نہ کرنے پر ہماری تحریک چلی اور پیپلزپارٹی کا الیکشن آگیا اسوقت جہاں وہ کمھبے کو کھڑے کرتے تھے، وہ جیتا جاتاتھا۔ لیکن ہم نے وہ الیکشن بہاولپور ڈویثرن، بہاولپور صوبہ، بہاولپورریاست میں سویپ کیا، پیپلزپارٹی کو صرف دو سیٹوں پر کامیابی ملی۔ صوبہ بحالی تحریک میں گولیاں چلیں، لوگ شہید ہوئے۔

ادھر 1971 میں سقوط ڈھاکہ ہوگیا، وہ لوگ، جو لوگ یہاں سے گئے تھے، وہ اپنے وعدے سے مکر گئے، ہمار ا 1964 میں انڈس واٹر ٹریٹی میں دریا بیچ دیا گیا، ، ہمار ا دریا چلا گیا، کسی نے ہماری طرف توجہ نہ دی۔ ہمار ا پانی کا ہیڈ کوارٹر اپنا تھا، تقسیم اپنی تھی۔ ہیڈ سلیمانکی، ہیڈ پلہ اور ہیڈ پنجند ریاست کے پیسوں سے بنے تھے، یہ جنوبی پنجاب اور سرائیکی صوبہ کی بات 1980 میں آئی ہے، ہم 70 سے رو رہے ہیں، پھر ہم سے مذاکرت ہوئے، بھٹو صاحب نے آخر پر کہا کہ آپ سے بات کروں گا، 1977کے الیکشن ہونے دیں۔

ہم نے کبھی نہیں کہا کہ جنوبی پنجاب اور سرائیکی صوبہ نہ ہو، ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن ہمیں ایک آرڈر سے، ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے وہاں سے نکال باہر کیا تھا، ہم کہتے ہیں کہ اسی آرڈر سے ہمارا صوبہ بہاولپور بحال کیا جائے، ہمارا کوٹہ علیحدہ ہے، ہماری شناخت علیحدہ ہے، ہمارا پانی ملتان والوں نے چھین لیا ہے، ہمیں ملتان پر اعتماد نہیں ہے۔ ملتان نے جب بھی مارا ہے، ہمارا حق مارا ہے، ہماری نوکریاں چھین لیں۔ انہوں نے ایگریکچرل یونیورسیٹاں چھین لیں کیونکہ فاصلہ سو کلومیٹر ہے۔ ہم اسیٹک ہولڈر ہیں ہم سے بات کرکے فیصلہ کیا جائے، جنوبی پنجاب نے کبھی صوبہ کیلئے تحریک نہیں چلائی ہے، جنوبی پنجاب کے جو لوگ سرائیکی صوبہ کے نام پر کھڑے ہوئے انہوں نے پندرہ سو سے زیادہ ووٹ نہیں لیے، ہم سب امتحان پاس کرچکے ہیں، ہم نے ماریں کھائیں، ہم نے الیکشن جیتا۔

بہاولپور صوبہ کی خاطر عباسی خاندان سمیت سارے لوگ جیلوں میں گئے، ہم نے سزائیں بھگتیں، ہم کیسے اپنے ان شہیدوں کو بھول سکتے ہیں۔ ابھی ہماری پانی کی تقسیم ہے ہمیں 4.2 کیوسک پانی ایک ہزار ایکٹر کیلئے ملتا ہے جبکہ 9.5کیوسک پانی ایک ہزار ایکڑ کیلئے ملتان کو ملتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ نوکریاں ہماری ہیں، چولستان ہمارا ہے، چولستان ہمارا 66 ایکڑ ہے، چولستان میں دس لاکھ گائیں بھیڑیں اور بکریاں جن کی تعداد پچاس لاکھ تک جا سکتی ہے، ہم سے روٹی سے چھین لی گئی، ہمارے سکول چھین لیے گئے، ہماری ہسپتالیں چھین لی گئیں، ہمیں بالکل ننگا کرکے کھڑا کر دیا گیا، ہم کہیں تو کس سے کہیں۔ ہماری طرف دیکھیں، ہم نے ایک ایک موقع پر پاکستان کیلئے قربانی دی ہے، آج بھی ہم دو کروڑ لوگ ہیں، اگلی صف میں کھڑے ہیں لیکن ہم کسی ملتان کے تابع نہیں رہنا چاہتے ہیں، ملتان نے پاکستان پر حکومت کی ہے، یہاں پر یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنا اس نے کہا کہ بہاولپور میری ماں کا گھر ہے لیکن ایک رتہ پیسہ بھی بہاولپور ڈویثرن پر خرچ نہیں کیا، پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ ہم ملتان کی سربراہی مان لیں۔ ملتان والے جو چاہیں مرضی بنائیں لیکن ہمارا صوبہ بہاولپور بنائیں، ہمیں ملتان میں شامل نہ کریں۔

قومی اسمبلی میں جاری پنجاب میں جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ بحالی کیلئے جاری بحث میں سربراہ بی این پی اختر مینگل نے بھی حصہ لیا۔ انہون نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قیام کے وقت پانچ صوبے تھے، پھر چار کیوں ہو گئے ہیں؟۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).