بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی یاد میں


اقبال نے کہا تھا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارہ

جب ہم عظیم قائد کی طرف دیکھتے ہیں تو اقبال کا یہ شعر ہمیں بہتر طور پہ سمجھ آجاتا ہے۔ کہ کیسے ایک فرد ایک قوم کے مقدر کا ستارا بن کے اس کی تقدیر بدل دیتا ہے۔

قائد نے سیاسی کیریئر کے تقریباً 40 سے زیادہ سال ہندوؤں کے ساتھ گزار کے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جدید جمہوریت کے تحت مسلمان کبھی بھی ہندو اکثریت جو کم و بیش 650 سال مسلمانوں کی محکوم رہی، اس کے ساتھ پرامن طریقے سے اب نہیں رہ سکتے۔ قائد نے تقسیم ہند سے پہلے کے سیاسی، مذہبی اور معاشرتی ماحول کو دیکھتے ہوئے ہی یہ فیصلہ کیا کہ الگ ملک ہی مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل ہے۔ ورنہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان سیاسی طور پہ ہندوؤں کے دست نگر ہوں گے اور مذہبی طور پہ ہندوؤں کے رحم وکرم پہ ہوں گے۔ اور یوں ہی پھر تخلیق پاکستان کا نعرہ بلند ہوا۔

ہمارے کچھ لبرل اور ہندو نواز دانشور اکثر یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ جب ہم سینکڑوں سال ہندوؤں کے ساتھ رہ سکتے ہیں تو پھر برطانوی راج کے بعد ہم کیوں نہیں اکٹھے رہ سکتے؟ لیکن یہ بات کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان سینکڑوں سالوں میں حکومت مسلمانوں کے پاس تھی اور شہنشاہیت و سلطانیت تھی جمہوریت نہیں تھی۔ جبکہ دین اسلام میں شروع دن سے ہی یہ خصوصیت رہی ہے کہ اس نے طاغوت کو چیلنج کرنا ہے۔ اس نے حق کے نور کو پھیلانا ہے۔ اور نور حق کبھی بھی کافر و مشرک حکمران کے تحت پھیل نہیں سکتا۔ کیونکہ یہ کفر کے نظام کے لیے زہر قاتل ہے۔

آج بھی جدید دور میں انتہائی لبرل و سیکولر معاشروں میں جہاں آزادی اظہار اور آزادی مذہب کا قیام ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے وہاں بھی مسلمانوں کو تبلیغ اسلام اور شعائر اسلام کی مکمل اور کلی آزادی نہیں ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہوتا کہ ہندوستان کا حکمران ایک برہمن ہوتا اور مسلمانوں کو کھلی چھٹی ہوتی کہ وہ اپنے دین کی تبلیغ اور شعائر کو بلا خوف و خطر اپنا کے طاغوت اور طاغوتی نظام کو چیلنج کرتے اور ریاست اور اس کی تمام تر مشینری اس میں نہ مداخلت کرتی اور نہ مداخلت کرنے کی اجازت دیتی۔ ناممکن۔ اس کو ہمارے پنجابی میں سنڈھے والے گھر سے لسی لینے والی بات سمجھا جاتا۔

اسی چیز کا ادراک کرکے عظیم قائد نے مملکت خداداد کی بنیاد رکھی۔ آج کچھ لوگ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اپنے بنیادی مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکا لیکن یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ جس بنیاد اور وجوہات کی وجہ سے یہ ملک بنایا گیا وہ غلط تھیں۔

نیز اس قوم کے باپ نے اس ملک سے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے کچھ نہیں لیا۔ کوئی بھی ذاتی مفاد حاصل نہیں کیا حتی کہ اپنی بہن کو کوئی سرکاری عہدہ نہیں دیا۔ ملک و قوم سے کچھ نہیں مانگا۔ موت کے بستر پہ لیٹے شخص کو اگر گورنر جنرل کا عہدہ مل بھی گیا تو اس عہدے کے حصول میں اپنی ازدواجی زندگی، اپنا چین آرام، اپنی اولاد حتی کہ اپنی زندگی تک داؤ پہ لگانا کہاں کی دانشمندی ہوسکتی ہے؟ اور ایسے بندے کے لیے اس عہدے میں کیا چارم ہوسکتا ہے؟ یہی اس بندے کی نیت کی صداقت کی گواہی ہے۔

وہ ہماری پوری قوم کے محسن تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ہم آج بھی پر امید ہیں کہ ان شا ء اللہ یہ ملک ایک دن وہ ملک ضرور بنے گا جس کا قائد نے وعدہ کیا تھا۔ آخر میں اس عظیم انسان کے آخری لمحات بزبان محترمہ فاطمہ جناح بیان کرکے بات ختم کرتا ہوں۔

”وہ کسی خلل کے بغیر دو گھنٹے گہری نیند سوتے رہے۔ پھر انہوں نے آنکھیں کھولیں، اور سر اور آنکھوں کے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا، انہوں نے بات کرنے کی آخری کوشش کی اور سرگوشی کے انداز میں کہنے لگے ؛

فاطی خدا حافظ! لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔ اور ان کا سر آہستگی سے قدرے دائیں جانب ڈھلک گیا۔ ان کی آنکھیں بند ہوگئیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صدقے عظیم قائد کے درجات بلند کرے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
کسی نے کیا خوب کہا۔

Gandhi died by the hands of an assassin; Jinnah died by his devotion to Pakistan۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya