موسمیاتی تبدیلی کا گلگت بلتستان پر قہر


\"safdar-ali-safdar\"صفدرعلی صفدر۔۔۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری ایک نئی پیش گوئی میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر کی طرح آئندہ دنوں میں مون سون ہوائیں گلگت بلتستان کا بھی رخ کریں گی، جس کے سبب ان علاقوں میں مختلف نوعیت کی آفات کے وقوع پذیر ہونے کے امکانات موجود ہیں، جن میں لینڈسلائیڈنگ یعنی پہاڑی تودوں کا سرکنا، موسلادھار بارشوں کے سبب ندی نالوں میں سیلاب اور طغیانی وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے گلگت بلتستان کے قدرتی حسن اورخوبصورت ماحول سے لطف اندوز ہونے کی خاطر ان علاقوں کی طرف رخ کرنے والے سیاحوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ عید کی چھٹیوں اور گرمی کے موسم میں ان علاقوں کی سیر کرنے سے اجتناب کریں ،تاکہ مون سون کی وجہ سے ان کے لطف میں بدمزگی پیدا نہ ہو۔

محکمہ موسمیات نے تو ایک آدھ لائنوں پر مشتمل خبر جاری کرکے اپنا کام تو تمام کردیا مگر ماہرین موسمیات و ماحولیات کی جانب سے اس ضمن میں متفرق آراء سامنے آرہی ہیں جن کے مطابق مون سون ہوائیں ہمسایہ ملک بھارت سے آتی ہیں جن کے بادل پانچ سے چھ ہزار فٹ بلندی پر اڑتے ہیں جبکہ شمالی علاقہ جات یا گلگت بلتستان کے پربت دس ہزار فٹ سے بھی زیادہ اونچے ہیں، جومون سون ہواوں کا راستہ روکنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی سطح پر تیزی سے بدلتے ہوئے موسمیاتی تغیرات کے باعث ایک طرف مون سون ہواوں نے ان پہاڑی علاقوں کا رخ اختیار کیا ہے تو دوسری طرف ان علاقوں میں موسم بہار اورگرما میں ہونے والی عمومی بارشوں کی مقدار میں بھی غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں سردیوں میں برفباری نسبتاً کم ہورہی ہے۔جس سے ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیل جاتی ہے، جس کی مثال رواں سال اپریل کے پہلے ہفتے ہونے والی بارشوں کی تباہی سے ملتی ہے۔

بہرحال ’’ کان کو دائیں ہاتھ سے پکڑے یا بائیں ہاتھ سے ،مقصد ایک ہی ہے‘‘ کے مصداق گلگت بلتستان میں گزشتہ کئی سالوں سے بڑی زوردار اور تباہ کن بارشیں تو ہوتی رہی ہیں ، چاہے وہ مون سون ہواؤں کے سبب ہوں یا دوسری وجوہات کے اثرات ۔

سال2010ء کے دوران گرمیوں کے موسم میں گلگت بلتستان میں جس قدر شدت سے بارشیں ہوئیں اور اس کے نتیجے میں جو تباہی مچی تھی وہ وہاں کے باشندوں کو بھولی نہیں ہے۔ اسی طرح 2011ء اور اس کے بعد ہر سال متواتر بارشوں سے ندی نالوں میں سیلاب اور طغیانی کے نتیجے میں ان علاقوں میں عوام کی جان ومال، سرکاری املاک اور انفراسٹکرچر کو جونقصان ہوا اس کا مداوا بھی تاحال نہیں کیا جاسکا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گلگت بلتستان کے متعدد علاقوں میں زرخیز اراضی بنجر بن گئی جبکہ سڑکیں، پل اور دیگر املاک بھی کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگے اور عوام کی زندگیاں اجیرن بن گئیں۔

علاوہ ازیں گلگت بلتستان کے برف پوش پہاڑوں کے دامن میں واقع گلیشئرز کے پگھلنے اور گلیشیائی جھیلوں کے ٹوٹنے کے سبب بھی ان علاقوں میں وسیع پیمانے پر تباہی دیکھنے میں آئی ہے،جس کی مثال گلگت بلتستان کے ضلع غذر کی تحصیل یاسین کے انتہائی شمال میں واقع سرحدی گاؤں درکوت کی تباہ حالی سے ملتی ہے۔

درکوت گاؤں میں موسمیاتی تبدیلی کے سبب ہونے والی تباہ کاری نے مقامی آبادی کے لئے اس قدر مسائل پیدا کیے کہ وہاں پر صدیوں سے آباد لوگ حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر دوسرے مقامات کی طرف نقل مکانی پر مجبورہیں۔ چند دن پہلے نظروں سے گزرنے والی ماحولیات پر کام کرنے والے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹس کے مطابق درکوت گاؤں کے مجموعی طور پر 305 گھرانوں میں سے 221 گھرانے قدرتی آفت سے شدید متاثر ہوئے ،جن میں سے ایک سو کے قریب گھرانے اپنا گھربار چھوڑ کر ضلع غذرکے دیگر محفوظ مقامات اور صوبائی دارالخلافہ گلگت میں عارضی طورپر آباد ہوئے۔ باقی ماندہ لوگوں کے لئے بھی یہ علاقہ ہر لحاظ سے غیر محفوظ بن چکا ہے مگر کمزورمعاشی حالت کے باعث ان لوگوں کے لئے علاقہ چھوڑکر کسی اور مقام پر منتقل ہونا ممکن نہیں ہے۔

یہ تو موسمیاتی تبدیلی اور بارشوں سے ہونے والی تباہ کاری کی صرف چند ایک مثالیں تھیں۔ اس کے علاوہ خطے کا کوئی بھی گاؤں طرح طرح کی قدرتی آفات کے خطرات سے خالی نہیں۔ حتیٰ کہ گلگت بلتستان اور راولپنڈی/اسلام آباد کے مابین زمینی رابطے کا واحد زریعہ شاہراہ قراقرم بھی ان آفات سے محفوظ نہیں، جو پہاڑی چوٹیوں کے دامن میں واقع ہونے کے باعث معمولی سی بارش میں بھی ہفتوں تک منقطع ہوکررہ جاتی ہے، جس سے دونوں اطراف سفرکرنے والے مسافروں کی مشکلات میں اضافے کے ساتھ ساتھ خطے میں وقتا فوقتا غذائی بحران بھی جنم لیتے ہیں۔

افسوس اس بات پر ہورہا ہے کہ اس تمام تر صورتحال اور ماضی کے تلخ تجربات کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان آفات سے بروقت نمٹنے اور آفات کے خطرات میں کمی لانے کی استعداد سے یکسر محروم ہیں۔ حکومتی عہدیدار سال بھر علاقے کی اس صورتحال اور ممکنہ آفات کے خطرات سے غافل رہتے ہیں ۔ جب آفات کے نتیجے میں ہرطرف تباہی مچی رہتی ہے تو ان کے ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں اور وقتی طور پر متاثرہ افراد میں تھوڑی بہت امدادی اشیاء تقسیم کرنے کے بعد پھر غفلت کی نیند سوجاتے ہیں۔

اگرچہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کے پاس قدرتی آفات کے متاثرین کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لئے انتہائی محدود وسائل موجود ہوتے ہیں، مگرخطے کی مجموعی صورتحال اور قدرتی آفات کے ممکنہ خطرات کو مدنظررکھتے ہوئے قبل ازوقت وفاق سے ایک معقول رقم کی فراہمی کا مطالبہ تو کیا جاسکتا ہے۔ گلگت بلتستان کی حکومت صیح معنوں میں اپنا یہ فریضہ نبھانے سے قاصر ہے۔

دوسری جانب صوبائی حکومت کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے اور آفات کے متاثرین کی امدادوبحالی کے حوالے سے کوئی جامع حکمت عملی نہ ہونے کے باعث مقامی لوگوں میں خودانحصاری ختم ہوتی جارہی ہے۔ یقین مانیں لوگوں کی عادتیں اس قدرخراب ہوچکی ہیں کہ کسی کی ایک اینٹ بھی اگر گر جائے تو وہ موقع کو غنیمت جان کرمصنوعی بیکاریوں کے روپ میں حکومتی اور نجی \"chilas-1\"اداروں کی جانب سے ملنے والی امداد کی طرف ہاتھ پھیلائے نظر آتے ہیں، جوکہ مہذب معاشروں کا ہرگز خاصہ نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی صورتحال میں صوبائی اور وفاقی حکومت کی کیا ذمہ داریاں ہوسکتی ہیں؟ اس پر جواباً عرض ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں حالات کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے آفات سے بروقت اور موثر انداز میں نمٹنے کے لئے سالانہ ترقیاتی بجٹ میں ایک معقول رقم مختص کرے، جس سے وفاقی اور صوبائی سطح پرقدرتی آفات سے نمٹنے کے سرکاری اداروں اور این جی اوز کے تعاون سے خطے میں آفات کے ممکنہ خطرات سے دوچار علاقوں کا خاکہ تیار کرے، پھر ماہرین کے زریعے متعلقہ علاقوں کی مقامی آبادی کی استعداد کار کو بڑھانے کے لئے تربیتی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے۔ اسی طرح آفت زدہ علاقوں میں حفاظتی اقدامات کے طور پر دریاؤں اور ندی نالوں کے دھانے پر حفاظتی پشتوں کی تعمیر،خوراک اور دیگر اشیائے ضروریا کا مناسب سٹاک وغیر۔۔وغیرہ کا بھی بندوبست کیا جائے۔

اس کے علاوہ صوبائی،ضلعی اور اگر ممکن ہوسکا تو تحصیل اور یونین کونسل سطح پر ممکنہ آفات سے متعلق پیشگی اطلاع (ارلی وارننگ) کا جدید سسٹم متعارف کیا جائے اور کمیونٹی کی سطح پر رضاکاروں پر مشتمل ایسے نیٹ ورکس تیار کیے جائے جو کسی بھی ممکنہ آفت کے دوران مقامی لوگوں کی مدد کے لئے بروقت حاضر ہوسکیں۔ ساتھ ہی ساتھ متاثرہ علاقوں تک آسان رسائی کو ممکن بنانے اور تباہ حال انفراسٹرکچر کی جلد ازجلد بحالی کو یقینی بنانے کے لئے عملی اقدامات بھی ازحد ضروری ہیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ماضی کی طرح مستقبل میں بھی معمولی آفت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments