گوادر کی حریف بندرگاہ چا بہار: ہندوستان کی تحویل میں
پیر 24 دسمبر کو ایران کی بندرگاہ چا بہار کا انتظام ہندوستان نے سنبھال لیا ہے۔ جنوبی ایران میں یہ بندرگاہ، صرف 80 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع پاکستان کی بندرگاہ گوادر کی حریف بندرگاہ بن کر ابھری ہے۔ اگرچہ کہا یہ جاتا پے کہ چابہار بندرگاہ کا مقصد جنگ زدہ افغانستان کی معیشت کو سہارا دینا اور ہندوستان کے لئے وسط ایشیا تک تجارتی راہ داری فراہم کرنا ہے لیکن درحقیقت اس کا مقصد وسط ایشیا سے پاکستان کی روابط کی راہیں مسدود کرنا ہے اور واہگہ سے کابل تک براہ راست راہ داری کے حصول میں ناکامی کے بعد چا بہار کے راستے ہندوستان کو براہ راست افغانستان سے رابطہ کے لئے متبادل راہ فراہم کرنا ہے۔
ایران کو بھی اس بندرگاہ کے ذریعہ افغانستان کے راستے وسط ایشیا سے تجارتی راہ استوار کرنے اور وسط ایشیا کے ممالک کو براہ راست آبنائے ہر مز کے دہانے پر خلیج عُمان تک رسائی حاصل ہو سکے گی اور یہ ممالک روس میں طویل راستہ کی دوری پر شمالی بندرگاہ کے ذریعہ بیرونی دنیا سے رابطہ پر دارومدار سے نجات پا سکیں گے۔
ہندوستان کو خطرہ تھا کہ ایران کے خلاف امریکا کی اقتصادی تادیبی پابندیوں کے نفاذ کی وجہ سے یہ بندرگاہ تینوں ممالک کے اشتراک سے محروم ہو جائے گی اور 2015 سے ہندوستان نے اس بندرگاہ کی تعمیر و توسیع پر جو سرمایہ لگایا ہے وہ برباد ہو جائے گا۔ لیکن گذشتہ نومبر میں اس بندرگاہ کو امریکا کی پابندیوں سے مثتنی قرار دینے کی کوششیں کامیاب رہی ہیں اور گذشتہ پیر کو ایران کے جنوب میں سیستان، بلوچستان میں چا بہار کی بندرگاہ میں ہندوستان کی کمپنی انڈیا گلوبل لمیٹڈ نے شاہد بہشتی پورٹ کا انتظام سنبھال لیا ہے۔
چا بہار بندرگاہ میں ہندوستان، افغانستان اور ایران کے اشتراک کے سمجھوتے پر 2015 میں دستخط ہوئے تھے اور ایران کی شوری نگہبان، گارڈین کاونسل نے نومبر 2016 میں منظوری دی تھی۔ اس دوران ایران اور ہندوستان کے درمیان ایک دوسرے سے خرید ی جانے والی ایک سو سے زاید اشیا پر محصول میں تخفیف پر بات چیت جاری ہے۔
ہندوستان کا دعوی ہے کہ چابہار کے بارے میں ہندوستان، افٖغانستان اور ایران کے درمیان سمجھوتے سے افغانستان کی معیشت کو مدد ملے گی لیکن دراصل اس بندر گاہ کے راستے، افغانستان پر ہندوستان کا اقتصادی، سیاسی اور فوجی تسلط اور گہرا ہوگا اور پاکستان کے خلاف ہندوستان کا محاصرہ اور مضبوط ہو گا۔
افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے سے پہلے پاکستان نے وسط ایشیا کے لئے ہرات اور کراچی کے راستے تجارتی راہ داری کھولنے کی کوشش کی تھی اور اسلام آباد اور تاشقند کے درمیان براہ راست پروازیں بھی شروع کی تھیں۔ لیکن ہرات کے راستے کراچی تک راہ داری افغانستان میں طالبان کے حریف گروہوں کے درمیان جنگ کی وجہ سے قایم نہ ہو سکی اور افغانستان کے راستے وسط ایشیا سے پاکستان کے روابط کے منصوبے ٹھپ ہو گئے۔
- راجہ صاحب محمود آباد، قاید اعظم اور سر ظفراللہ خان - 01/09/2021
- یورپ سے آزادی یا اس صدی کا بڑا جوا - 03/02/2020
- پاکستان ٹوٹنے کی پیش گوئی مشرقی پاکستان کے سیاستدان نے کب کی؟ - 16/12/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).