کیا آپ بھی جہیز لیتے ہیں؟ پھر تحریر نا ہی پڑھیں


ہم اور تقریبا ہم سب بلکہ چھوڑئیے، ہم سب کے گھروں کی بات کرتے ہیں۔ ہماری تہذیب و تمدن کے قصے تو خیر پہلے سے ہی سر بازار آ چکے ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر قتل، کہیں بچیوں کو نوچتے خون خوار بھیڑیوں کی شکل میں اسی معاشرے کے نوجوان اور تو اور بچوں کو مسجدوں میں پیار نہیں مار کا درس پڑھانے والے۔ کچھ داڑھی والے لوگ اور باقی رہ جاتے ہیں۔ مدرسوں میں لمبی داڑھوں والے ہوس پرست، جن سے نہ تو بچیاں بچ پاتی ہیں اور نہ ہی کم سن بچے۔ ان کومولوی اور قاری اس لیے بھی لکھنا غلط ہے کہ اس مقدس پیشے سے کھلواڑ سب نہیں، کچھ افراد کر رہے ہیں۔

خیر یہ سب تو چل ہی رہا ہے۔ کردار سازی میں ہمارا معاشرہ اتنا اونچے درجے کا نیچے گرا ہوا کہ پناہ بخدا! معاشرہ میں دو قسم کے افراد ہیں، خاص کر مسلمان ممالک میں۔ اپنی بیٹیوں کو بیاہنے کے لئے اچھے لڑکے کی خواہش تقریبا تمام والدین کو ہی ہوتی ہے، لیکن اچھے لڑکے کی تعریف ہر کسی کی مختلف ہوتی ہے۔ کہیں لڑکا امیر کبیر ہو تو اچھا، کہیں گورنمنٹ کی نوکری ہو تو اچھا، کوئی لڑکا اپنی بیوی کو الگ گھرمیں رکھے تو اچھا، اور باقی کچھ لوگوں کے لئے اچھے کا مطلب ہوتا ہے، لڑکا کتنے پیسے دے گا ہمیں، تا کہ ہم اپنی بیٹی اس کو دیں۔ جو لوگ سعودی عرب میں وقت گذار چکے ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہاں کے رشتے شہر کے حساب سے مہنگے اور سستے ہوتے ہیں۔ بڑے شہروں میں لڑکیوں کے مہنگے داموں رشتے ہوتے ہیں اور چھوٹے شہروں کے قدرے سستے ہو جاتے ہیں۔

ملک خداداد، وطن عزیز میں رسم اس سے کچھ الٹی ہے، یوں کہہ لیجیے یہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ یہاں جب لڑکی بیاہنے کی بات چلتی ہے، تو بہت سے با عزت و با شرف خانداوں کی رالیں ٹپکنے لگتی ہیں۔ یہ رال لڑکی کے لئے نہیں، اس کے ساتھ آنے والے جہیز کے لئے ٹپک رہی ہوتی ہے۔ ان کا لڑکی سے تو کچھ خاص لینا دینا نہیں ہوتا، ہاں جہیز کی بات ضرور کرتے ہیں۔ یقین مانیے بچی کے گھر سے بھیک مانگنے والے یہ افراد اتنے مطمئن ہو کر مانگ رہے ہوتے ہیں، جیسے اپنا حق مانگ رہے ہیں۔

ایک تو گھر والے اپنی بچی کو پال پوس کر پڑھا لکھا کر کام کاج سمجھا کر بڑا کرتے ہیں اور جب بیاہ کی باری آتی ہے، تب بھی یہ گھر والے اپنی بچی کو باہم سہولت پہنچانے کے لئے جو جتن کرتے ہیں، یہ تو بچی کے والدین ہی جانتے ہیں۔ اپنی بیٹی بھی دیتے ہیں، ساتھ اس کو زندگی بھر کے لئے اشیا ضروریہ بھی مہیا کرتے ہیں۔ یہ جہیز لینے والے لٹیرے اتنی ڈھٹائی سے سب لے رہے ہوتے ہیں، کہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ ان کی اپنی بھی بیٹیاں ہیں، اور یہ جو داڑھی اور بغیر داڑھی والے میرے ملک کے پڑھے لکھے نوجوان بھی اتنے سیدھے سادھے بنے پھرتے ہیں، کہ اپنے محترم والدین کی غیر مہذیب ڈِمانڈز پر ایک لفظ تک منہ سے نہیں نکالتے۔ الٹا کچھ تو ایسے ہوتے ہیں، کہ کہہ رہے ہوتے ہمیں پیسے دے دیجیے، ہم اپنی پسند کی چیزیں خود خرید کر لیں گے۔

معذرت کے ساتھ، اگلا حصہ یہ جہیز لینے والے نوجوان نہ ہی پڑھیں تو اچھا ہے! جس بے شرمی اور نا مردی سے یہ جہیز لیتے ہیں، کیا ان کو حیا نہیں آتی۔ کیا ان میں شرم نہیں ہوتی، کیا ان میں احساس نام کی چیز رتی برابر بھی نہیں ہوتی؟ اس پرلے درجے کی بے غیرتی پر خوش ہو کر یہ اپنے دام وصول کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں لڑکے والے خود اپنے برخوردار کا ریٹ لگا رہے ہوتے ہیں، کہ ہمارا بیٹا اتنے کا ملے گا آپ کو۔ خرید سکتے ہیں تو خرید لیجیے، قیمت لگتی ہے کہ یہ خاندان اتنے میں سودے بازی کر لیتا ہے۔

پہلے انسانوں کی قدر ہوتی تھی اور اس زمرے میں آنے والے ہر طبقہ کی قدر نہیں قیمت ہوتی ہے، لیکن اب قیمت لگتی ہے۔ سب بکاؤ مال، جو اچھی بولی لگائے گا یہ اسی کے ہاتھ بک جائیں گے۔ معذرت یہ میں نہیں کہہ رہا، جہیز دینے والے خاندان اور وہ لڑکی کہہ رہی ہے، جو ایسے گبھرو نوجوانوں کی قیمت ادا کر چکے ہیں، اور حد تو یہ ہے کہ بعض اوقات جب بات بگڑ جاتی ہے، میاں بیوی اپنی راہیں جدا کر لیتے ہیں، تو بیٹی والے اپنا سامان اٹھا لیتے ہیں؛ پھر یہ جہیز لینے والے اسی کمرے میں ایک چارپائی پر گہری نیند سوتے نظر آتے ہیں۔

وقار حیدر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار حیدر

وقارحیدر سما نیوز، اسلام آباد میں اسائمنٹ ایڈیٹر کے فرائض ادا کر رہے ہیں

waqar-haider has 57 posts and counting.See all posts by waqar-haider