اہل یورپ کا ثقافتی احساس برتری ناقابل قبول ہے


\"edit\"سوٹزرلینڈ کے حکام نے بارہ اور چودہ برس کی دو مسلمان لڑکیوں کو یہ کہہ کر ملک کی شہریت دینے سے انکار کردیا ہے کہ انہوں نے اسکول کے مقررہ قواعد و ضوابط کے مطابق لڑکوں کے ساتھ پیراکی کے اسباق لینے سے انکار کیا تھا۔ اس طرح انہوں نے مقامی رسم و رواج اور ثقافت کو مسترد کیا اور اسکول کے سلیبس پر بھی عمل کرنے سے انکارکیا ۔ اس لئے انہیں سوٹزرلینڈ کی شہریت نہیں دی جا سکتی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ عدالت میں یہ معاملہ جانے کے بعد اس پر کیا فیصلہ کیا جائے گا لیکن سوس حکام ثقافتی برتری کی جو مثال قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ گلوبلائزیشن کے موجودہ زمانے میں ناقابل قبول ہے۔

اگر اس معاملہ کو مغربی معیار اور بنیادی اخلاقی اور قانونی اصولوں کی بنیاد پر بھی دیکھا جائے تو 18 سال سے کم عمر بچوں کو اسکول بھیجنا اور اسکول کے قواعد پر عمل کروانا اسکول اور والدین کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ان مسلمان لڑکیوں نے بھی والدین کی تربیت کے نتیجے میں لڑکوں کے ساتھ سوئمنگ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ اس طرح ان کے اس فعل کے اصل ذمہ دار والدین ہیں۔ لیکن اس کی سزا کم عمر اور نابالغ بچیوں کو دی جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ امتیازی سلوک کے علاوہ کم سن بچیوں کو ایک ایسے فعل کی سزا دینے کے مترادف ہے، جس پر ان کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی ہیں اور اس گھرانے کے عقیدے کے مطابق پیراکی کے مخلوط اسباق مناسب نہیں ہیں، کیوں کہ اس طرح ان کے اسلامی عقائد کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ سوٹزرلینڈ حکام نے دوسرے عقیدے کی حساسیت کو سمجھے بغیر کم سن بچیوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے دراصل قبولیت اور قوت برداشت کے بنیادی جمہوری اصول کو مسترد کرنے کے علاوہ معاشرے میں آباد لوگوں کے اس بنیادی حق کی مخالفت بھی کی ہے کہ ہر شخص کو اپنے عقیدے اور روایت پر اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔

سوئس حکام کا یہ طرز عمل ناقابل فہم اور ایک خطرناک اور ناقابل قبول سماجی احساس برتری کا مظہر ہے۔ دنیا کا کوئی معاشرہ اور ثقافتی روایت نہ تو جامد ہوتی ہے اور نہ ہی نقائص اور غلطیوں سے پاک ہو سکتی ہے۔ جدید مواصلت کے موجودہ عہد سے پہلے جب سفر کرنے میں مشکلات حائل تھیں اور مختلف خطوں کے لوگ ایک دوسرے سے آسانی سے رابطہ نہیں کر سکتے تھے، اس وقت انسان اپنے اپنے علاقوں میں محدود تھے اور میل جول کی انہی روایات اور طریقوں کو حرف آخر سمجھتے تھے جو اس علاقے میں بوجوہ اختیار کرلی گئی تھیں۔ سائنس اور مواصلات کی ترقی کے ساتھ مختلف علاقوں کے لوگوں کا آپس میں میل جول بڑھا اور انہوں نے ایک دوسرے کے طریقوں سے سیکھنا شروع کیا۔ یہ عمل اب بھی جاری ہے اور اس میں سفر کی سہولت اور انٹر نیٹ کے ذریعے رابطوں کی وجہ سے بے حد تیزی بھی آچکی ہے۔ جدید معاشرہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اس عمل میں سخت گیر رویہ اختیار کرکے صرف مشکلات ہی پیدا کی جا سکتی ہیں ، مسائل حل نہیں ہو سکتے۔

سوٹزرلینڈ اس سے پہلے مساجد پر مینار تعمیر کرنے پر پابندی لگا چکا ہے۔ یہ ملک اپنی سخت گیر اور قدامت پسندانہ سوچ کی وجہ سے مشہور ہے اور اپنے ملک کواس دنیا سے علیحدہ خطہ سمجھنے کی فاش غلطی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ طرز عمل صرف انتہا پسندانہ سیاسی رجحانات کو فروغ دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ قوم پرست عناصر دوسرے لوگوں کے خلاف نفرت اور تعصب پھیلاتے ہیں اور معاشرہ دنیا بھر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو قبول کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ حکمت عملی کسی جدید یورپی ملک کے مستقبل کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہو سکتی۔

یہ بات عمومی طور سے تسلیم کی جاتی ہے کہ نئے معاشروں میں آنے والے مسلمانوں یا دوسرے عقائد کے لوگوں کو نئی روایات اور رسم و رواج کے مطابق خود کو ڈھالنا چاہئے تاکہ معاشرتی تصادم کی صورت پیدا نہ ہو۔ ان میں سب سے اہم زبان سیکھنا اور مقامی روایات کے ساتھ ممکنہ حد تک تال میل پیدا کرنا ہے۔ تاہم یہ بات بھی اسی طرح مسلمہ ہے کہ میزبان معاشروں کو بھی آنے والے لوگوں کے عقائد اور بعض اہم سماجی روایات جن میں پکوان اور پہناوا بھی شامل ہو سکتا ہے ، سے سیکھنے اور انہیں قبول کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یورپ کے بیشتر ملکوں میں کامیابی اور خوش اسلوبی سے یہ تجربہ کیا جا رہا ہے۔ بعض اوقات اختلاف کی صورت ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن اسے باہمی مواصلت اور افہام و تفہیم سے حل بھی کرلیا جاتا ہے۔ تارکین وطن اور مقامی معاشروں کو اس عمل میں لچک دکھانے اور ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مقصد زور زبردستی اور یک طرفہ قانون سازی کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

گزشتہ چند برسوں میں عقیدے کے نام پر دہشت گردی کی وجہ سے خوف کی فضا پیدا ہوئی ہے اور مغربی معاشروں میں احساس عدم تحفظ میں اضافہ ہؤا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے بعض مسلمان معاشروں سے آنے والے لوگ بھی غیر ضروری طور پر سخت گیر رویہ اختیار کرکے تصادم اور اختلاف کی صورت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر مغربی ممالک اپنے ملکوں میں آباد مسلمانوں کے ساتھ امتیازی اور متعصبانہ سلوک کو فروغ دینے کا سبب بنیں گے تو اس سے صرف انتہا پسند گروہوں کے مقاصد پورے ہو ں گے۔ اس وقت انسانی معاشرے ایک مشکل اور خطرناک صورت حال کا سامنا کررہے ہیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے سب لوگوں کو مل جل کر خطرات کا مقابلہ کرنا ہے۔ معاشرتی تقسیم اور تصادم سے صرف تخریبی قوتوں کو فائدہ ہوگا اور انہیں آسانی سے معاشروں سے ناراض نوجوانوں میں ہرکارے دستیاب ہو نے لگیں گے۔ اس انتشار سے بچنے کے لئے ثقافتی برتری کا اعلان کرنے کی بجائے ثقافتی میل جول اور مشترکہ اقدار تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments