عورت ۔۔غیرت کا سرکس اور نفس کا کنواں


محبت ہی وہ واحد احساس ہے جو انسان کے اندر کی گندگی کو دھو ڈالتا ہے۔ طوافِ عمرہ کے دوران مرد اور عورت کو دیکھ لیجیے۔ مرد کا جسم آدھا کھلا ہوتا ہے اور بھیڑ کی شدت میں عورت اور مرد ایک دوسرے سے لگ کر چل رہے ہوتے ہیں۔ اُس ہجومِ بیکراں میں نفس کے ماروں اور گناہگاروں کی یقیناً اکثریت ہوتی ہے، چاہے مرد ہو، چاہے عورت ہو۔ مگر وہ کیا چیز ہے جو طواف کرنے والوں کو اپنے اور دوسرے کے جسم سے لاتعلق رکھتی ہے؟ وہ ہے رب سے محبت۔ رب کے روبرو ہونے کی کیفیت۔ گناہوں اور خطاؤں کا اعتراف۔ دوسروں سے زیادہ اپنے گندے ہونے کا احساس۔

ورنہ نفس کی عُریانیت کی یہی وہ تنگ گلی ہے جہاں کم عمر بچیاں خون کے انتہائی قریبی اور محرم رشتوں کے ہاتھوں درندگی کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اُتر جاتی ہیں۔

ایک غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہے۔

ایک بے غیرتی کی بھوک پر۔

ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں یہ۔

عورت اور مرد کی تنہائی میں تیسرا شیطان موجود ہوتا ہے۔ شیطان ہماری ہی ذات کی معکوس  نقل ہے۔ یقیناً ہوتا ہے بیچ میں مگر بحیثیت اشرف المخلوقات انسان کو شیطان پر برتری اور مزاحمت کی قوت حاصل ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا کی ہر عورت ریپ ہو چکی ہوتی اور ہر مرد ریپسٹ  ہوتا۔ شیطان ڈرانے کی چیز نہیں ہے۔ شیطان بندے کا اپنے نفس پر اختیار کا ٹیسٹ ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت اور مرد کی تنہائی میں شیطان اُنہیں گن پوائنٹ پر بہرحال مجبور کرتا ہو کہ اُٹھو اور ابھی کے ابھی میرے سامنے جنسی فعل کرو۔ یوں بھی نہ ہی عورت کو ہر مرد اور مرد کو ہر عورت کشش  کرتی ہے۔ یہ فطری خیال کہ یہ سامنے والا مرد کاش کہ میرا ہوتا! یا یہ خیال کہ یہ سامنے بیٹھی ہوئی پُر کشش عورت کاش کہ مجھے مل سکتی! عورت اور مرد کے بیچ سے ہو کر گزر بھی جاتا ہے اکثر، مگر کوئی قیامت نہیں آتی۔ بحیثیت اشرف المخلوقات دونوں اپنے اپنے اندر یہ ٹیسٹ پاس کر کے آگے بڑھ بھی جاتے ہیں اور بھول بھی جاتے ہیں، شیطان آیا شیطان آیا کا شور مچائے بغیر۔ مگر ہوتا یوں آیا ہے کہ مذہب کو اپنی پگ بنانے والوں کو معاشرے میں سب سے پہلے عورت کے معاملے میں خود کو پارسا ثابت کرنا ہوتا ہے۔ کوئی ان سے یہ سوال کرے یا نہ کرے مگر چور کی داڑھی کے تنکے کی طرح سب سے پہلی بات وہ یہ ہی ثابت کرنے کی اداکاری کرتے ہوئے نظر آئیں گے کہ ان کے اندر عورت کے جسم کی کوئی خواہش ہے ہی نہیں۔ وہ انسان نہیں فرشتے ہیں۔ دھلے ہوئے، پاک اور پوتر! مگر ہے تو وہ بشر۔ مرد۔

 نفس کی فطری گندگی سے ہر شب وہ لت پت تو ہوتا ہی ہے مگر صبح ہوتے ہی بِلبِلا اُٹھتا ہے کہ تمام فساد کی جڑ عورت ہے۔ اسے مارو۔ اسے کھونٹے سے باندھو۔ اسے بند کرو۔ اسے ہی ڈھانپو۔ اسے دور کرو اپنی نظروں سے۔ یوں وہ اپنی گندگی پر قے کرتا چلا جاتا ہے۔ اپنے نفس کی یہ کشمکش اُس کے تشریح شدہ مذہب کو عورت سے نکلنے ہی نہیں دیتی۔ ہر مسئلہ عورت سے اُٹھ کر عورت پر تمام ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اپنی مذہبی ٹھیکیداری کی پگ اونچی رکھنے کے لیے عورت پر تھوُ تھوُ کرنے کی ترغیب دینا شروع کر دیتا ہے۔

 اسلام اسی مرد کے نفس کے سرکش گھوڑے کو قابو میں رکھنے کے لیے چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے مگر اُن چار شادیوں کو قرآن میں یوں مشروط کرتا ہے کہ اگر تم ان کے درمیان انصاف کر سکو۔ پھر یہ بھی کہہ دیا کہ جو کہ تم نہیں کر پاؤ گے۔ چار شادیوں کی اجازت بھی محض نفس کے سرکش گھوڑے پر قابو پانے کے لیے ہی نہیں دی گئی۔ معاشرے اور حالات کے کئی طرح کے اُتار چڑھاؤ کے اسباب بھی اس میں شامل ہیں، مگر سب سے اہم یہاں بھی نکاح میں عورت کی قبولیت اوّلین شرط ہے، کہ وہ مرد کی دوسری، تیسری اور چوتھی بیوی بننا چاہتی ہے یا نہیں! اس لیے بھوک مٹانے کے لیے سب ہی کو چار میسّر بھی نہیں ہو سکتیں۔

پھر ذرا غور کیا جائے تو پارسا حور کا وعدہ دراصل نیک مرد کے ساتھ کیا گیا ہے جو معاشرے میں اپنے نفس کی فطری گندگی کو قابو میں رکھتا ہے۔ راہ چلتی عورتوں کو گریبان سے پکڑ کر تھوُ تھوُ کرنے کے بجائے اپنی نظر کو جھکا کر رکھتا ہے اور اللہ سے اپنی وابستگی  کو اپنی ذات اور ذاتی مفادات اور نفس کی سرکشی پر فوقیت دیتا ہےاور جو جانتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ یہ نظر جھکانا کیا ہے؟ نظر جھکانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مرد سڑک پر سامنے دیکھنے کے بجائے زمین پر نظر رکھے اور کسی تیز رفتار گاڑی سے ٹکرا جائے۔ نظر وہ جس کی نیت کی اللہ کو ہم سے زیادہ خبر ہے۔ نظر وہ جو جھکتی ہے تو زمین کی طرف نہیں اپنے ہی اندر کی طرف دیکھتی ہے اور اپنے اندر کی گندگی کو دیکھ کر شرمندہ ہوتی ہے اور بے اختیار توبہ کی طلب گار ہو جاتی ہے۔

اب یہ نظر کمبخت خود تو جھکتی نہیں، نتیجہ اس کا نفسیاتی اور جنسی ردعمل نکلتا ہے۔ اس یک طرفہ تقاضے کے ساتھ ظلم اور تشدد کی صورت میں سامنے آتا ہے کہ عورت کو نظروں سے دور کرو۔ حالانکہ سورۃ نور کی آیت 30 میں پہلے مردوں کو اپنی نگاہیں جھکائے رکھنے اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے پھر آیت 31 میں وہی حکم عورتوں کے لیے دیا گیا ہے کہ وہ “بھی” اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔۔۔۔۔”

مگر صرف آیت 31 کو پیش کیا جاتا ہے بلکہ اسے اپنے نفسِ بے لگام کے بچاؤ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تو قرآن پاک کی حفاظت سے متعلق اللہ تعلیٰ کا وعدہ ہے جس کی وجہ سے اس میں کسی بھی ردّ و بدل کی مجال نہیں مسلمانوں کو ورنہ اس سے پہلے کی آسمانی کتابوں میں ردّ و بدل کرکے اللہ کے احکامات کو ہر دور کی male chauvinistپدر سری سوسائٹی میں اپنے معاشرتی مفادات اور رویّوں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اور آج کل یہ رویّہ معاشرے میں صرف عورت کو گندا ثابت کرنے کا عملی  طریقہ بن چکا ہے۔ عورت ہی کیا، ہم ہر معاملے میں آدھا حکم چھپاتے ہیں اور آدھا حکم پیش کرتے ہیں۔

یوں ایک ایسے معاشرے میں جہاں جہالت، جہالت کی لکیر سے بھی نیچے ہو، لیکن اس معاشرے کی بنیاد مذہب ہو، اور وہ بھی اس حد تک کہ کاروبار بن چکا ہو، وہاں اس طرح کے رویّے غیرت کو بھی مذہب کا سرٹیفکیٹ دے دیتے ہیں اور غیرت کے نام پر قتل کو بھی ورثاء کا حق قرار دے دیتے ہیں اور اس غیر انسانی فعل کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ مرد کے اندر کی جنسی گندگی کو بھی تھپکی دیتے ہیں کہ بُری تیری نگاہ نہیں ہے۔ بُری دراصل عورت ہے۔

 اس مذہبی اور معاشرتی ٹھیکیدار مرد کو یہ بتانے والا کوئی نہیں اس معاشرے میں کہ بھائی جان۔۔ تیری ماں بھی ایک عورت تھی۔ ایک مرد کے ساتھ سوئی تھی اور اس کی تسکینِ شہوت کے لیے استعمال ہوئی تھی۔ پھر اس کے پیٹ میں جو نطفہ ٹھہرا وہ نو مہینے اس کے خون کی آبیاری اور بڑے کٹھن دردِ زہ کے بعد تیری صورت میں پیدا ہوا۔ تیری خون نچوڑنے والی برسوں کی پرورش کے بعد اس کے پیروں تلے وہ بہشت آتی ہے جو دراصل تجھے کمانا ہے، اسے نہیں۔ اور وہ کمائی کیا ہے؟ تیرے باپ کی جنسی خواہشات اور تیری پرورش کی چکی کے دو پاٹ کے بیچ پِس پِس کر نڈھال ہو چکی عورت کی عبادت کی حد تک خدمت اور رضا حاصل کرنا۔ یہاں اللہ بھی اس کا طرف دار ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام تک کو براہِ راست خبردار کرتا ہے کہ سنبھل کر کوہِ طور پر آنا موسیٰ، تیری ماں نہیں رہی۔ سو حورانِ بہشت تو بہت آگے کی بات ہے، اس عورت کا حق ادا نہ کرنے کی صورت میں تو وہ اِک نگاہ ِ کرم بھی نہیں اُٹھے گی تیری طرف، جو گر اُٹھ جائے تو جھولی کے ساتھ ساتھ جتنے بھی خالی ہیں جام سب بھر جائیں گے۔ اس کا حق ادا کیے بنا چاہے توُ جہاد ہی کر لے مگر نتیجہ صفر! ابھی آگے یہ بھی سُن۔۔۔ کہیں بھی یہ نہیں فرمایا گیا کہ تیری ماں کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ اس کا باکردار اور پارسا ہونا مشروط ہے۔ اگر وہ سینہ ڈھانپتی ہو! اگر حجاب لیتی ہو! نہیں ۔۔۔۔ بلکہ اگر وہ زندہ نہ ہو تو اس کی بہن کی خدمت کر۔ اور اس کی بہن کے لیے بھی کوئی شرط نہیں رکھی گئی۔ اور یہی عورت اس مقام تک پہنچنے کے سفر کے دوران بہن بھی ہے اور بیٹی بھی ہے۔

إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ

9 مئی 1918

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments