خبرناک کو برا کہتے ہو اچھا نہیں کرتے


کامیڈی شوز میں بازاری مزاح سے متعلق ملک عمید صاحب ( میں انہیں ذاتی حیثیت میں نہیں جانتا ) کا مضمون پڑھا اور یقین کیجیے بہت مایوسی ہوئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تمام کامیڈی شوز کا اپنا منفرد رنگ ہے اور موٹے، کالے، بھدے پر پھبتیاں کسنے سے بات بہت آگے نکل گئی ہے۔ کم از کم خبرناک کی حد تک تو میں بہت ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں۔ دوسری بات یہ کی اگر رانا ثنا اللہ شیخ رشید کو راولپنڈی کا ناسور اورفواد کو جہلم کو ڈبو کہے یا خواجہ آصف شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہے یا آصف زرداری شیری رحمان کو باندری ( نجی محفلوں میں ) اور شیخ رشید کسی خاتون کو ٹیکسی اور ساتھی سیاستدان کو بلو رانی کہتے گا تو آپ خود فرمائیے سیاسی طنز و مزاح کے شوز میں کامیڈین ان کا کردار ادا کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی والی زبان استعمال کرے؟ کیسا بھونڈا اور پھکڑ پن ہو گا۔

سعادت حسن منٹو یاد آتا ہے جو کہتا تھا کہ میں اس سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی اور اسے کپڑے پہنانا میرا کام نہیں درزیوں کا ہے۔ پھر یہ کہ کامیڈی شوز (خاص طور پر خبرناک) روایتی کامیڈی سے بہت آگے چلا گیا ہے لیکن ہمارا دانشور طبقہ کامیڈی شو کی تعریف کرتے ہوئے گھبراتا ہے کہ کہیں اسے بھانڈوں کا رسیا نہ سمجھ لیا جائے۔ پچھلے دنوں انور مقصود اور حنا دلپذیر کا ایک مکالمہ یو ٹیوب پر دیکھا اور آپ یقین کیجیے ایسا لچر پن، ایسی واہیات کامیڈی، ایسا پھکڑ پن میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

ایک بیوہ ( حنا دلپزیر) اپنی جنسی مراجعت اور جب شوہر زندہ تھا تو نابینا ساس کا جنسی سرگرمی میں حائل ہونا بڑا تجسس پیدا کر کے سنا رہی تھی اور جناب کامیڈی کے باوا آدم صاحب ٹھرکی بڈھوں کی طرح چسکے لے لے کر پوچھ رہے تھے کہ جنسی سرگرمی میں حائل ساس کا کیا علاج کرتی تھی وغیرہ۔ خبرناک میں کسی کی ذات، رنگ، نسل، زبان، ثقافت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی سخت بات کہنی بھی ہو تو میزبان معافیاں مانگتی رہ جاتی ہے۔

کسی سیاستدان کا ٹھٹھہ قیاس آرائیوں پر نہیں اڑایا جاتا بل کہ اس کی پس منظر میں واضح خبر اور تحقیق موجود ہوتی ہے۔ خواجہ آصف نے ایک خاتون رکن اسمبلی کو جنہیں انہوں نے شاہد خاقان عباسی کا منسڑز اینکلیو میں کمرہ دلوایا ہوا تھا بلیک بیری فون لے کر دیا اور ہمارے پاس پکی خبر تھی لیکن یہ کہہ کر مذاق نکال دیا گیا کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ خبرناک پر تو میں معیاری تنقید کے انتظار میں رہتا ہوں لیکن آج تک کسی نے معیاری تنقید نہیں کی۔

ایسی فضول باتیں ہی سننے کو ملتی ہیں کہ کالے کا کالا کہہ دیا، فلاں کو موٹا کہہ دیا، اسے چھوٹا کہہ دیا۔ میرا پہلا سوال ہوتا ہے کہ آخری بات پروگرام کب دیکھا تھا اور جواب آئیں بائیں شائیں یا پھر تعریفیں شروع کہ واہ واہ علی میر جیسا تو دنیا میں ہے ہی کوئی نہیں۔ یہ طبقاتی تفاخر کا مسئلہ زیادہ اور تنقید کم ہے ورنہ خبرناک میں جو سیگمنٹس پیش کیے جاتے ہیں انہیں دیکھ کر آپ کی تنقید کا رخ ہی بدل جاتا ہے۔ خبرناک ( صرف خبرناک جیو نیوز پر آتا ہے ) میں ایسے ایسے سیگمنٹس پیش کیے جاتے ہیں جو ہیں ہی دانشور حضرات کے لیے ہیں حالانکہ ہمارا باقاعدہ ناظر تو دانشور نہیں ہے لیکن آپ یقین کیجیے ان سیگمنٹس کی ریٹنگ بھی بہت آتی ہے اور ان سے متعلق کالز بھی۔

خبرناک کی تحقیق: غالب کی حویلی میں غالب کا غلط شعر

ایک سیگمنٹ ہے سخن ناک جس میں کلاسیکل اور معاصر شعرائی کا تقابل بہت فنکارانہ انداز سے کیا جاتا ہے۔ پھر ایک سیگمنٹ ہے درستناک جس میں ایسے ایسے اشعار کو درست کروایا جاتا ہے جو یا تو غلط شاعر سے منسوب ہو گئے ہیں یا غلط چھپ چکے ہیں۔ آج کے پروگرام میں ان اشعار کو منظر عام پر لایا گیا ہے جو غالب کے ہیں اور غالب کی حویلی میں ہی غلط لکھے گئے ہیں مثلاً، ”کوئی ویرانی سی ویرانی ہے / دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا“ کو اس طر ح لکھا گیا ہے ”کوئی ویرانی سی ویرانی ہے / گھر کو دیکھ کر دشت یاد آیا“۔

پھر کچھ کردار مثلاً چاندی پہلوان منٹو کی کہانی رندھیر پہلوان سے لیا گیا ہے اور سیاسی بصیرت کے موتی بکھیرتا ہے۔ تانترک سیاسی مخبریاں کرتی ہے۔ اس نے کہا ہوا ہے کہ جنوری کے دوسرے ہفتہ میں ڈالر کو ایک دھچکا اور لگے گا۔ زنیرہ ماہم ایک شاندار ایکٹریس ہیں جو کبھی آپ کو راشد کی شاعری سناتی نظر آتی ہیں تو کبھی علاقائی کردار ادا کرتیں۔ ان کی باتوں سے فلرٹ کرنے کا گماں گزرتا ہے اور سامنے بیٹھا کردار جھینپ جاتا ہے لیکن اگلے ہی لمحے اس کا سارا مزہ کافور ہو جاتا ہے جب زنیرہ یعنی وہ کردار بالکل غیر متوقع صورتحال پیدا کر دیتا ہے مثلاً شیخ رشید کو سٹیم انجن کے پیچھے بلوا کر ایک سیلفی کی استدعا کرتی ہے۔

خبرناک کی تحقیق: غالب کی حویلی میں اسد اللہ خان غالب کا نام اسعد اللہ خان لکھ دیا گیا ہے

علی میر کے کردار کا بہت واضح فرق ہے یعنی جو بات علی میر کرداروں کی صفائی یا چالاکی سے متعلق کہہ دیتا ہے وہ اصل آدمی بھی شاید نہ کہہ سکتا ہو مثلاً حمزہ جب مریم کو بہن بہن کہتے اصل سیاسی حریف گمان کرے گا تو بات کہاں جا کر لگتی ہے۔ میں آفتاب اقبال صاحب کی بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتا ( گو کہ ہم نے ان سے بہت سیکھا ہے ) کہ تضحیک کی جائے یا وہاں چوٹ کی جائے کہ دوسرا بھول نہ سکے۔ خبردار میں انہوں نے واضح طور پر نواز شریف کو ٹارگٹ کیا اور ہم طرفہ کامیڈی کہ جبکہ خبرناک میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔

سیاستدانوں کی غلطیوں، کوتاہیوں اور چال بازیوں کا انتہائی نازک طریقے سے مذاق کیا جاتا ہے اور اڑایا وہاں جاتا ہے جہاں خود سیاستدان کھلا موقع دے مثلاً صوبائی وزیر اطلاعات نے اداکارہ نرگس کو حاجن بنانے کا عندیہ دیا اور سخت زبان استعمال کی۔ ان کی سخت گیری، عجیب و غریب حرکات و سکنات کو ذرا مبالغہ کے ساتھ پیش کیا گیا تاکہ ناظرین میں وہ کردار اپنی تمام بوالعجبیوں سمیت رچ بس سکے۔ نام نہاد داشوروں کو پتہ نہیں کیوں سارے پروگرام میں اچھی باتیں چھوڑ کر ایک آدھ جگت چبھ جاتی ہے حالانکہ میں نے ان سب کو شرابیں پی کر ایسی ایسی ہذلیات بکتے دیکھا ہے کہ خدا کی پناہ!

گھر بیٹھی ایک دوسرے کی عورتوں کا جو حال اپنے جنس میں لتھڑے اور پھکڑ پن میں نہلائے فقروں میں کرتے ہیں کہ بندہ سوچتا رہ جاتا ہے آیا یہ حضرت اتنے ہی چغد اور باؤلے ہیں یا آج کوئی خاص کوشش کر رہے ہیں یا پرائی بوتل کا خالص پن لڑ گیا ہے۔ رضا رومی صاحب کا نام یوں لیا ہے ملک صاحب نے جیسے وہ کامیڈی پر اتھارٹی ہوں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں تنقید کرنے والے وہ دانشور ہیں جنہوں نے در اصل پروگرام دیکھا ہی نہیں ہوتا ورنہ ان کی تنقید کا زاویہ یہ نہ ہو جو نظر آتا ہے۔

آپ خود سوچیے رضا رومی جیسے کو تو یہ دیکھ کر چھت سے لگنا چاہیے کہ پاکستان کے ایک کامیڈی شو ( خبرناک ) میں فرانز کافکا پر بات ہو رہی ہے، موپساں کی کہانی سنائی جا رہی ہے، بالزاک اور بریخت کے فن پر بات ہو رہی ہے، گورکی کا فن ڈسکس ہو رہا ہے، راشد، غالب، داغ، مومن، میر اور مصحفی کی ایسی ایسی باتیں بتائیں جا رہی ہیں کہ اردو پڑھانے والے سیکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتہ مصحفی کی غزل کے فیض کی ”میرے دل میرے مسافر“ پر اثرات ڈسکس ہو رہے تھے۔

کسی دانشور کو سیکھنے کی توفیق نہ ہوئی۔ عام ناظر جھومتا رہ گیا اور میں ادب سے متعلق گفتگو کی ریٹنگز دیکھ کر حیران۔ خبرناک میں بعض اوقات میزبان پر کوئی پھبتی کسوائی جاتی ہے تاکہ جس کی بھد اڑائی جا رہی ہے اس کا بھی کتھارسس ہو سکے۔ جب عمران خان کی ڈمی میزبان پر اوئے اوئے چلاتی ہے ہم بھی خان صاحب پر تنقید کے قابل ہو جاتے ہیں اور خان صاحب کے مداحین بھی ہمیں برداشت کر لیتے ہیں لہذا خاطر جمع رکھیے ہم بہت سیانے ہیں اور ایک ایک فقرہ ناپ تول کر استعمال کرتے ہیں۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی بجائے پروگرام بہت غیر جانبداری سے دیکھیں۔ کہیں غصہ بھی ائے گا اور کہیں خجالت بھی ہو گی لیکن آپ پروگرام دیکھنے کے بعد ایک مختلف انسان ہوں گے اپنی سوچ میں۔ کم از کم خبرناک سے متعلق۔

اسی بارے میں: کیا پاکستان میں سیاسی طنزنگاری کے نام پر ’بازاری مزاح نگاری‘ ہو رہی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).