کیا استاد کی تکریم کے اسٹیکر “قبر” پہ لگانے کی اجازت ہے؟


دسمبر درد کا موسم۔۔۔ دسمبر کرب کا نوحہ۔۔۔۔ نجانے دسمبر کا درد سے کیا رشتہ ہے، جو سال کے آخری دنوں میں پڑتی سردی، احساسات کو بھی منجمد کر دیتی ہے۔ اک باقی رہ جاتا ہے تو فقط کرب، جو نہ لفظوں میں بیان ہوتا ہے نہ ہی دل میں نہاں رہتا ہے۔ کئی دنوں سے یہ برفیلا موسم روح کے اندر تک سرایت کیے ہوئے ہے۔ بے سبب اداسی نے قلم کو جکڑ لیا ہے، اور لفظ اندر کہیں بین کرتے رہتے ہیں۔ مگر نوک قلم تک آنے کی جرات نا پید ہے۔

وہ ہاتھ کیا لکھیں جو قلم پکڑتے ہیں، تو ڈر ڈر کے، کہیں اپنے لکھے کی پاداش میں ہتھ کڑی نہ مقدر ٹھہرے۔ وطن عزیز آج کل ایسی ایسی تبدیلیوں کی زد پر ہے کہ آنکھ اکثر نم ہی رہتی ہے۔ اس تبدیلی نے وہ نظارے دکھائے ہیں، جو آج تک ان گنہ گار آنکھوں نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ سنا تھا قانون ”اندھا“ ہوتا ہے، اب تو لگتا ہے قانون ”سماعت“ سے بھی محروم ہے۔ ورنہ ازخود نوٹس لینے والے اور اساتذہ کے لئے ”تکریمی اسٹیکرز“ جاری کرانے والے ہتھ کڑی کی صرف مذمت ہی نہ کرتے، بلکہ کوئی ایسا حکم جاری کرتے، کہ استاد کے ہاتھوں کی ہتھ کڑی زندگی میں نہ سہی، بعد ازمرگ تو کھل ہی جاتی۔

نئے پاکستان میں انصاف کا بول بالا ہے۔ نجانے یہ کیسا ”انصاف“ ہے جو کبھی کبھی تو ”انتقام“ جیسا لگنے لگتا ہے۔ انتقام بھی وہ جو قانون کی طرح اندھا ہے۔ جسے نہ یہ دکھائی دیتا ہے کہ زد پہ آیا فرد، ابھی ملزم ہے، مجرم نہیں۔ وہ جو کبھی چلتا پھرتا، سانس لیتا اک وجود تھا، اب اک بے جان سی ”لاش“ ہے۔ جسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس کی میت پہ ”پھول“ چڑھے ہیں یا ابھی تک ”ہتھ کڑی“ کا زیور پہنے ہوئے ہے۔

درد تو اس کے وارث جھیلیں گے، وہی جو اس جیسے بے قیمت و بے بس اساتذہ ہیں۔ جن کے لئے ابھی نئے نئے ”تکریم کے اسٹیکرز“ جاری ہوئے ہیں۔ ہر تھانے میں نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہے کہ جہاں جہاں سے ”محترم“ استاد کی ”گاڑی“ کا گذر ہو، وہاں سلیوٹ کی سلامی دی جائے۔ ”مجرم“ استاد کے لئے خدا معلوم کیا حکم جاری ہوتا ہے۔

کرب تو اس کے خاندان کا مقدر بنا ہے، جو اپنے پیارے کی آخری تصویر کا تصور بھی کریں گے تو پہلے ”ہتھ کڑی“ ذہن میں آئے گی۔ پھر وہ اذیت کا اندازہ کریں گے جو مرنے سے پہلے ان کے لاڈلے نے اٹھائی ہو گی۔

قانون کیا کہتا ہے؟ قانون کون بناتا ہے؟ تبدیلی کے نعرہ گو اس میں کیا تبدیلی کر سکتے ہیں؟ یہ تو قانون دان ہی جانیں یا پھر تبدیلی سرکار۔ ہمیں تو فقط اتنا پوچھنا ہے کیا مرنے کے بعد ”اساتذہ“ کے تکریمی اسٹیکرز ”قبروں“ پہ لگانے کی بھی اجازت ہو گی؟ کیوں کہ زندگی میں ایک استاد جو کماتا ہے، وہ کمائی تو بس ”عزت“ کی شکل میں بچتی ہے۔ اس عزت سے ”گاڑی“ تو خریدی نہیں جا سکتی۔ تو کیا ہم ”وصیت“ تیار کرا لیں کہ ہماری قبر پہ جو کتبہ نصب ہو، اس کے ساتھ تکریمی اسٹیکر بھی لگایا جائے؟ قبرستان سے گزرنے والا ہر پولیس مین ہماری قبر کو بھی سلیوٹ کرے۔ کیا اتنی سی اجازت ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).