بے نظیر زندہ ہوتیں تو ۔۔۔۔


آج کے دور میں معجزے اور کرامتیں کم کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں لیکن پھر بھی تصور کر لیتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو کیا کیا ہوتا اور کیا کیا نہ ہوتا؟

محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد سے پہلے لندن کے ہائیڈ پارک میں واک کے دوران میرا ان سے تفصیلی مکالمہ ہوا تھا۔ محترمہ کے ہمراہ رحمٰن ملک اور ناہید خان دونوں موجود تھے۔

محترمہ نے واک شروع ہوتے ہی مجھ سے پوچھا کہ میں نے لال مسجد آپریشن کی حمایت کی ہے کیا یہ صحیح فیصلہ ہے؟ ناچیز صحافی نے جواب دیا کہ آپ نے بالکل ٹھیک کیا ہے قومی لیڈر کو رسک لینا پڑتا ہے اگر میری بیوی اپنی مرضی سے کار ڈرائیو نہیں کرسکتی اور ہم اپنی مرضی کی فلم نہیں دیکھ سکتے تو ہمارے لیڈر کا فرض ہے کہ ہم سے یہ حق چھیننے والوں کے خلاف آواز بلند کرے محترمہ کو جواب پسند آیا شاید اسی لیے اگلا سوال کیا کہ اگر ملٹری اور Militants(مذہبی انتہا پسندوں)میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو کس کا کریں گے؟

سوال صحافی کے مبلغ علم سے بڑا تھا مگر پھر بھی جواب تو دینا تھا سو کہا کہ پاکستانی جمہوریت کے تناظر میں دونوں کا کردار قابل رشک نہیں دونوں جمہوریت کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں مگر پھر بھی ان دونوں میں سے ایک کو چننا پڑے تو ملٹری کو چننا چاہیے کیونکہ انتہا پسند انارکی پھیلاتے ہیں جو جمہوریت کو چلنے نہیں دیتی جبکہ ملٹری آرڈرز (امن )لاتی ہے جو کہ جمہوریت کے قیام کی شرط اولین ہے۔ محترمہ کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر نا چیز کو اطمینان ہوا کہ جواب انہیں پسند آیا ہے۔

بے نظیر

اگلا سوال سب سے بھاری تھا بے نظیر بھٹو نے پوچھا Will my life be safe if i land in pakistan(میں اگر پاکستان اتروں تو کیا میری زندگی محفوظ ہو گی؟)

یہ نا چیز ہمیشہ سے خوش فہم ہے اس لیے امید کو ناامیدی پہ ترجیح دیتا ہے برائی کو مسترد کر کے اچھائی کا ذکر کرتا ہے اور تحزیب میں سے بھی تعمیر ڈھونڈنے کی سعی کرتا ہے اسی لیے بلا سوچے سمجھے جواب دیا کہ بالکل اگر اسٹبلیشمنٹ (اصلی سرکار) میں تھوڑی سی بھی عقل ہے تو وہ پھولوں کے ہار پہنا کرائیر پورٹ پر آپ کا استقبال کرے گی اور پھر یہ لوگ اپنی حفاظت میں آپ کو ایوان وزیر اعظم لے جائیں گے کیونکہ جس طرح آپ نے کراچی آپریشن میں سویلین قیادت اور سرکار کے ساتھ مل کر کامیابی حاصل کی تھی بالکل اسی ماڈل سے ہی انتہا پسندی کے خلاف لڑا جاسکتا ہے۔

محترمہ مسکرائیں شکریہ ادا کیا اور یوں ہماری ملاقات ختم ہو گئی۔ تھوڑے ہی عرصے بعد محترمہ پاکستان آئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان پر پہلا قاتلانہ حملہ ہوا اور دوسرے میں وہ شہید ہو گئیں۔

بینظیر

                                                                    محترمہ کے بعد غریبوں اور مزدوروں کے لیے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں رہا

ان کی شہادت کے بعد مجھے اپنی خوش فہمی اور غلط اندازوں پر بہت افسوس رہا جو میں نے سوچا تھا اس کے بالکل الٹ ہوا سماج اور سرکار دونوں نے بے نظیر بھٹو کی حفاظت پر توجہ نہ دی جنرل مشرف کی حکومت نے انہیں معمولی سیکورٹی دی حالانکہ حکومت کو اچھی طرح علم تھا کہ بے نظیر بھٹو کی جان حقیقی خطرہ ہے اصلی سرکار نے بھی فوج یا آئی ایس آئی کا حفاظتی دستہ فراہم کرنے کی بجائے اسے عام سویلین سیکورٹی کے سپرد کر دیا۔

پیپلز پارٹی کے نام نہاد محافظ نہ تربیت یافتہ تھے اور نہ ہی انہیں خطرات سے ڈیل کرنا آتا تھا۔ رحمٰن ملک سیکورٹی کے انچارج تھے مگر بم دھماکے کی آواز سن کر سیکنڈ بلٹ پروف گاڑی واپس لانے کی بجائے کہیں دور نکل گئے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ہمارے سارے سماج اور سرکار سب کا حصہ ہے جس کی جو ذمہ داری تھی اس نے نہیں نبھائی عدالتوں کو اس مقدمے کو جو ترجیح دینی چاہیے تھی وہ انھوں نے نہیں دی۔ گواہوں نے گواہی دینے سے انکار کر دیا۔

پیپلز پارٹی کو جس طرح اس مقدمے کی پیروی کرنی چاہیے تھی اس نے نہیں کی۔ سو مردہ معاشرے کا ہر فرد ہی اس بڑی موت کے ذمہ داروں کا تعین نہ کرسکنے کا ذمہ دار ہے۔

فرض کرتے ہیں کہ یہ حادثہ نہ ہوتا سیکورٹی محترمہ پر دوسرا حملہ ناکام بنا دیتی۔ محترمہ الیکشن جیت کر وزیر اعظم بن جاتیں تو محترمہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا رزمیہ کردار بن کر ابھرتیں۔

مذہبی انتہا پسندی کے خلاف سالہاسال جو تساہل برتا گیا بیانیے میں جو الجھاؤ رہا وہ محترمہ کے آنے سے دم توڑ جاتا اور جو کامیابی ہم نے آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر سالوں میں حاصل کی وہ ہم شاہد مہینوں میں کر لیتے۔

بے نظیر زندہ ہوتیں تو پاکستان پر طالبان اور انتہا پسندوں کی در پردہ امداد کا الزام نہ لگتا۔ محترمہ زندہ ہوتیں تو انتہا پسندوں کے خلاف فتح یاب ہو کر دنیا بھر کے دورے کرتیں دنیا بھر سے پاکستان کی خوشحالی کے لیے گرانٹ اور امداد لے کر آتیں۔ پاکستان کا بیانیہ وہی ہوتا جو آج ملالہ کا ہے۔ جتنی مقبولیت ملالہ کو آج دنیا بھر میں مل رہی ہے۔ اس سے کہیں بڑھ کر ملالہ کی لیڈر بے نطیر بھٹو کو ملتی۔

بینظیر

                                                                    وہ زندہ ہوتیں تو بہت کچھ مختلف ہوتا۔ مگر سب سے زیادہ کمی ان کے نہ ہونے کی ہے

اس ناچیز کی خوش فہمی تو یہ بھی کہتی ہے کہ اگر بے نظیر بھٹو کی آخری کتاب ’مفاہمت‘ کے فارمولے پر عمل ہوتا تو تہذیبوں کا ٹکراؤ ختم ہو سکتا تھا اور تو اور انتہا پسندوں کو بھی قومی دھارے میں لایا جاسکتا تھا۔ پاکستان کے تناظر میں اگر افغانستان میں امن ہو کر مستحکم حکومت قائم ہو جائے اور بھارت کے ساتھ امن کا معاہدہ ہو جائے تو اس خطے کے لوگ خوشحالی کے سفر پر زیادہ تیزی سے چلتے نظر آئیں۔

پاکستانی فوج اور عوام ایک ہوتے تو جمہوریت مضبوط ہوتی۔ اداروں کا استحکام آئین کی روشنی میں ہوتا اور آج پاکستان دنیا کے جمہوری ممالک میں سر فہرست ہوتا۔

افسوس یہ ہے کہ ہماری خوش فہمیاں 70 سالوں سے پوری نہیں ہو رہیں خوشحال جمہوری پاکستان کے تصور کو ہر بار کوئی نہ کوئی جھٹکا اپنی منزل سے کہیں دور کر دیتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بھی ایسا ہی واقعہ ہے جس نے واحد جمہوری اور لبرل نظریات کی حامل لیڈر کا مٹا ڈالا۔

اسلامی دنیا کی سب سے پاپولر لیڈر بے نظیر بھٹو، عالم اسلام کے لبرل نظریات کا استعارہ بھی تھیں۔ محترمہ کے بعد غریبوں اور مزدوروں کے لیے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں رہا۔ میڈیا کی آزادی اور عدالتوں کے فیصلوں پر کوئی بات کرنے والا نہیں رہا۔ پاکستان کی غلط خارجہ پالیسی اور سٹرٹیجک غلطیوں پر روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں رہا۔

آصف زرداری اور اصلی سرکار کی خارجہ پالیسی کے بارے سوچ میں کوئی تفاوت نہیں نواز شریف کو اگر کوئی اختلاف ہے بھی تو وہ اسے عوام میں نہیں لاتے محترمہ ان سب معاملات کو عوام کی آگہی کے لیے سب کے سامنے لاتی تھیں۔

وہ زندہ ہوتیں تو بہت کچھ مختلف ہوتا۔ مگر سب سے زیادہ کمی ان کے نہ ہونے کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سہیل وڑائچ

بشکریہ: روز نامہ جنگ

suhail-warraich has 34 posts and counting.See all posts by suhail-warraich