آپ نے فلم ’غالب‘ دیکھی؟


رشید رضوی نے بالکل درست فرمایا، کِہ مغل دور نے ہندوستان کو تین نایاب چیزیں دی ہیں۔ انھی تین چیزوں کی وجہ سے مغل بھی ہمیشہ ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہیں گے۔ مغل دور نے ہندوستان کو تاج محل، اردو اور مرزا غالب سے نوازا ہے۔

’’مرزا غالب‘‘؛ گلزار صاحب اور کیفی عظمی نے اس فلم کو تحریر کیا ہے۔ 1988 میں یہ فلم بنائی کی گئی تھی۔ در اصل ’’مرزا غالب‘‘ ٹیلی ویژن سریز تھی، بعد میں اس سیریز کو فلم کی شکل دی گئی۔ بھارت کے معروف اداکار نصیر الدین شاہ نے اس فلم میں مرزا غالب کا کردار ادا کیا ہے۔

دلی کے محلے بلی ماراں کے کوچے قاسم خان کی ایک حویلی میں ہندوستان کے عظیم ترین شاعر مرزا غالب نے زندگی کے روز و شب کس طرح گذارے، اس حوالے سے فلم میں سب کچھ نہایت عمدگی سے دکھایا گیا ہے۔ مرزا غالب بارہ سال کی عمر میں آگرہ سے دلی آئے، پھر مرتے دَم تک دلی میں رہے۔ غالب کی زندگی کی تمام کیفیات کس طرح شاعری کی شکل اختیار کرتی ہیں، اس چیز کا مشاہدہ فلم میں سب سے زیادہ حسین محسوس ہوتا ہے۔

فلم میں دکھایا گیا ہے، کہ غالب جن کی بارہ سال کی عمر میں شادی کر دی جاتی ہے، وہ بھی ایک ایسی لڑکی سے جو بہت مذہبی ہے اور غالب بالکل ایک غیر مذہبی شخص ہیں۔ غالب ہمیشہ بیوی کو یہ کہتے ہیں کہ انھیں ایک ایمان والی ملی ہے، لیکن وہ ایمان سے بہت دُور ہیں۔ اس کے باوجود ان دونوں کی میں بہت خوب انڈر اسٹینڈنگ ہے۔ ایک مذہبی باتیں کرتی ہیں اور ہر وقت توبہ توبہ کرتی رہتی ہیں اور دوسرا ہمیشہ کافرانہ ادائیں دکھاتا نظر آتا ہے۔

پھر یہ بھی دکھایا ہے، کہ مرزا غالب شراب کے رسیا ہیں۔ فلم میں مرزا نوشہ کی جوا کھیلنے کی عادت کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ جوئے کی لت کی وجہ سے مرزا کو چھے ماہ کی قید بھی ہوتی ہے؛ اس کے باوجود وہ جوا کھیلنا نہیں چھوڑتے۔ غالب جس طرح عید مناتے ہیں، اس سے بڑھ کے دیوالی کا جشن مناتے ہیں۔ اس بات پر انھیں کافر بھی کہا جاتا ہے، جو عید سے زیادہ دیوالی کا شیدا ہے۔

فلم دیکھنے کے دوران معلوم ہوتا ہے، کہ غالب کے زمانے میں شاعری عروج پر تھی۔ اس شاعری کا دائرہ کار محدود تھا اور اس میں وہ گہرائی نہیں تھی، جو غالب کا خاصہ ہے۔ غالب کی شاعری کا فلسفہ انسان ہے، انسانی مسائل ہیں۔ غالب کی زندگی میں جدائی کی تکلیف کا عنصر بہت زیادہ ہے؛ اسی وجہ سے شاید ان کے فکر و نظر میں بلندی کی کیفیت ہمیشہ نمایاں نظر آتی ہے۔ وہ ہمیشہ ایک زندہ دل، خوش اخلاق، غیر مذہبی اور شاید بے دین بھی نظر آتے ہیں لیکن یقین سے ایسا نہیں کہا جا سکتا کہ بے دین تھے۔

اس زمانے کے سنی انھیں شیعہ ہونے کا طعنہ بھی دیتے تھے۔ فلم کی کہانی کے مطابق، غالب کہا کرتے تھے کہ ابھی تو انھیں یہ لوگ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں لیکن ایک زمانہ آئے گا جب ان کی فکر پر کتابیں لکھی جائیں گی۔ غالب نے ایسا کہا یا نہیں، لیکن دیکھ لیجیے غالب پر پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان پر ڈاکومنٹریاں بنائی گئیں۔ فلم اور ٹی وی سیریز بنائی گئیں، اسٹیج ڈرامے لکھے گئے۔ جہاں میر، وہیں غالب اردو کے سب سے بڑے شاعر مانے جاتے ہیں۔

دیوان غالب میں اردو کے شاید کوئی اٹھارہ سو شعر ہیں، اس کے علاوہ غالب کا زیادہ کلام فارسی میں ہے۔ اس کے علاوہ مرزا غالب کے دوسروں کو لکھے خطوط بھی ہیں، جو اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ یہ خطوط کس کیفیت میں تحریر کیے گئے، فلم دیکھنے کے دوران معلوم ہوتا ہے۔

مرزا غالب کے یہاں لفظ کبھی علامت، کبھی اشاریے، کبھی استعارہ، کبھی کیفیت، کبھی خیال اور کبھی احساس بن کے سامنے آتے ہیں۔ اسی وجہ سے غالب اردو دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ غالب زبان کا بادشاہ ہے۔ جس طرح اردو کے لفظوں کو غالب نے استعمال کیا شاید بہت کم لوگوں نے اس طرح لفظوں کا استعمال کیا ہے۔ غالب کی شاعری میں زندگی کی تمام کیفیات ہیں، زندگی کے تمام احساسات ہیں اور زندگی کے تمام زاویے غالب کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔

غالب کا یہ مصرع دیکھیے، ’’کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے‘‘۔ اب اس میں کلیسا کا استعمال کیا خوب ہے۔ کلیسا کو یہاں جدیدیت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ کسی مذہبی استعارے کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ مثلا یہ شعر یہ دیکھیے گا:

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

اب اس شعر ہی کو ملاحظہ فرمائیے:

بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

غالب کی شاعری میں ہر قسم کا لہجہ، ہر قسم کا موضوع اور ہر قسم کا خیال نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں جوش تخیل ہے۔ انھوں نے جو کہنا چاہا وہ آسانی سے کہہ گئے۔

یہ مسائل تصوف، یہ ترا بیاں غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا

اور

دَیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گذر پہ ہم،غیر ہمیں اُٹھائے کیوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).