سی پیک اور پاکستان کا مستقبل


چین پاکستان معاشی راہ داری (سی پیک) جو کہ چین کے منصوبے ’ایک پٹی ایک شاہ راہ‘ کا ایک حصہ ہے، کو ملک کے لئے ایک اہم سنگ میل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اس منصوبے، جو چین کو پاکستان میں گوادر کی بندر گاہ کے ذریع ‎بحیرہ عرب سے منسلک کردے گا، سے ملک میں نوجوانوں کے لئے ملازمتیں پیدا ہوں گی، ٹیکنالوجی کو فروغ ملے گا، سستی بجلی پیدا ہو سکے گی، سیاحت کو بہتر بنانے اور ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔

سی پیک کی موجودہ قیمت 62 ارب امریکی ڈالر ہے اور یہ منصوبہ پورے ملک میں جاری ہے۔ یہ نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے امن اور ترقی کے لئے ضروری ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور میں سی پیک کے تحت تیز رفتار بس سروسز اورموٹر ویز سمیت کئی ترقیاتی منصوبوں پر تیزی سے کام شروع کیا گیا۔ ان منصوبوں میں سے کچھ اب تکمیل کے قریب ہیں، جب کہ کچھ مکمل ہو چکے ہیں۔ سی پیک کو نئی بلندیوں تک لے کر جانا اور چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا پاکستان تحریک انصاف کے منشور کا ایک حصہ ہے۔

اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں حکومت کی سنجیدگی اس بات سے عیاں ہے کہ جب وزیر اعظم عمران خان نے چین کا دورہ کیا، تو دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی تعاون کے حوالے سے 15 نئے منصوبوں پر دست خط کیے گئے۔ پاکستان، جس کی معیشت نئی حکومت آنے کے پہلے روز سے ہی مشکلات کا شکار ہے، کے لئے سی پیک ایک ترقی کا انجن ہے۔ پچھلی حکومت نے اس راہ داری کی مدد سے ٹرانسپورٹ اور کاروباری منصوبے شروع کیے، جب کہ موجودہ حکومت سی پیک کو ایک نئی سمت دے رہی ہے۔

یہ اس منصوبے کو تعلیمی، زرعی اور ثقافتی ترقی کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ جو کہ بلا شبہ ایک اچھی بات ہے۔ اس کے علاوہ، پی ٹی آئی نے ملک میں اقتصادی عدم استحکام کا الزام مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی پر لگایا ہے۔ کمرشل بنک عوامی شعبوں میں کاروبار شروع کرنے کے لئے رقم کی ادائیگی نہیں کرتے۔ زیادہ سے زیادہ مقبولیت حاصل کرنے اور اپنے ووٹرز کی تعداد بڑھانے کے لئے، پچھلی حکومت نے چینی سرمایہ کاری کو سڑکوں کی فوری تعمیر اور عوامی شعبوں کے لئے استعال کیا۔

اس کے نتیجے میں، معیشت مصنوعی طور پر بڑھتی ہوئی دکھائی دی۔ نئی حکومت پاکستان کی معیشت کو حقیقی طور پر اٹھانے کے لئے پرعزم ہے۔ پچھلے دور میں دیکھا گیا کہ سی پیک کے تحت زیادہ تر کام حکومتی سطح پر ہی جاری رہا لیکن اب آپ دیکھیں گے کہ بہت سی نئی نجی کمپنیاں اس منصوبے میں حصہ لیں گی اور کاروباری افراد کو اس راہ داری کے خصوصی اکنامک زونز میں کام شروع کرنے کا موقع مل جائے گا۔ ایسا کرنے سے نجی شعبے میں نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

مزید برآں، حکام اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے دوسرے ممالک کو بھی مدعو کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں سعودی عرب سمیت مختلف ممالک کے ساتھ بہت سے معاہدوں پر دست خط بھی ہو چکے ہیں۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لوگ اپنے ملک میں چینی ثقافت کا عکس دیکھیں گے۔ پہلے سے ہی بہت سے تعلیمی اداروں میں چینی زبان سکھائی جا رہی ہے، تا کہ نئی نسل کل کے پاکستان کے لئے تیار رہے۔ ایک ایسا وقت تھا جب ملک میں انگریزی زبان کو بہت اہمیت حاصل تھی۔

والدین اپنے بچوں کو انگلش میڈئم اسکولوں میں بھیجتے تھے اور یہ لوگوں کے لئے ایک معمول تھا کہ جوانگریزی جانتا ہو اس کو زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جائے، لیکن آج پاکستان ویسا نہیں ہے جیسا کہ یہ ایک دہائی پہلے تھا۔ وقت بہت بدل چکا ہے۔ اکنامک زونز اور پاکستان میں چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے ساتھ امکان ہے کہ عوام اب انگریزی زبان پر چینی زبان کو ترجیح دیں گے۔ اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سی پیک کے منصوبوں میں زیادہ سے زیادہ چینی کاروباری ادارے حصہ لیں گے، لہذا مقامی مزدوروں کو فوری فوائد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انھیں چینی زبان سمجھنی اور بولنی آتی ہو۔

پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ماضی میں دہشت گردی کے حملوں کے باعث بری طرح متاثر ہوا۔ لیکن اب، وہاں صورت احوال بہتر ہو رہی ہے اور یہ صوبہ سماجی و اقتصادی ترقی کے مراحل میں ہے۔ اس صوبے کے عوام نے ایک ایسی حکومت منتخب کی ہے جو اس علاقے کو سی پیک کی مدد سے سنوارنا چاہتی ہے۔ گوادر کی بندر گاہ تجارت کا ایک مرکز بن جائے گی اور جو افراد کم تعلیم یافتہ ہیں ان کو بھی ان کی مہارت کے مطابق ملازمتیں ملیں گی۔

گوادر میں ایک میگا آئل سٹی بنایا جا رہا ہے جو کہ خلیجی ممالک سے در آمد شدہ تیل ذخیرہ کرنے اور اسے چین منتقل کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ مغربی راستے کے مقابلے میں، جو ایک مہینے سے زائد کا وقت لیتا ہے، یہ نیا راستہ چین میں تیل کی نقل و حمل کے لئے صرف ایک ہفتہ لے گا۔ علاوہ عزیں، خواتین کو بھی ملک کی ترقی میں شریک ہونے کا موقع ملے گا اوران کے خواب سچ ثابت ہوں گے۔ تھر کے لوگوں کے لئے تبدیلی پہلے ہی نظر آ رہی ہے، جہاں تھر کول پاور پراجیکٹ میں بہت سی خواتین کو ملازمتیں دے دی گئی ہیں۔

اس سے پہلے، تھر پاکستان میں سب سے غیر ترقی یافتہ علاقہ تھا اور اگر چہ ابھی کافی کام ہونا باقی ہے لیکن، چین کے تعاون سے، لوگوں کی زندگی وہاں پر اب بحال ہونا شروع ہو گئی ہے۔ مالیاتی بحران کے کالے بادلوں نے چاروں طرف سے ملک کی معیشت کو اپنے لپیٹے میں لے رکھا ہے اور پاکستانی روپے کی قیمت دن بہ دن گر رہی ہے۔ ایسے مشکل حالات میں چین نے آگے بڑھ کر پاکستان کا ہاتھ تھاما ہے تا کہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔

تین دہائیوں سے زائد کے عرصے تک پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی انگلی تھام کر معاشی عدم استحکام کی دلدل سے نکلتا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کا ماننا ہے کہ پاکستان کا آئی ایم ایف سے لئے گئے 21 پروگراموں میں سے کوئی بھی پروگرام کام یاب نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اب بھی مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف غریب ممالک کو معیشت مستحکم کرنے کے لئے اصلاحات کا ایک نظام اور قرض فراہم کرتا ہے، اس کے بر عکس، سی پیک ایک سے زیادہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کی شکل میں قوموں کو ریلیف پیکج پیش کرتا ہے۔

اس کی مدد سے، 2017 ء میں پاکستان نے 5.4 فی صد کی تاریخی مالی ترقی دیکھی ہے۔ اس سے قبل ایسی ترقی 2004 ء میں دیکھی گئی تھی۔ اب تک 22 سے زائد سی پیک منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ چینی قرضوں کی واپسی 2021 ء سے شروع ہو گی، جب کہ 2024 ء اور 2025 ء کے درمیان سب سے بڑی ممکنہ مقدار کے ساتھ یہ واپسی 20 سے 25 سال تک مکمل ہو جائے گی۔ ملک کی معیشت کو اندرونی معاونت فریم کرنے والے جسم کی تشکیل ہو چکی ہے۔ عوام کو سی پیک میں ہونے والی ہر نئی تبدیلی کے حوالے سے مطلع کیا جا رہا ہے اور لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کے لئے خوش حالی کا ایک نیا باب کھول دے گا۔ لیکن، حکومت کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں طویل مدتی معاشی استحکام لانے کے لئے مختلف قسم کے جرائم پر قابو پانا بھی ضروری ہے۔ اس ملک کا مستقبل چینی قرضوں کی ادائیگی کے لئے اس کی صلاحیت پر منحصر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).