دہکتی سیاسی کثافتیں


مَیں وفاقی بجٹ کی اچھائیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لینے کے لیے ذہن بنا رہا تھا کہ قومی اسمبلی میں ہونے والے شرمناک واقعات نے ذہنی سانچہ یکسر بدل ڈالا۔ مَیں سوچنے لگا کہ جب پاکستان کے سب سے معتبر اور بااختیار اِدارے کے ارکان جو عوام کے ووٹوں سے یہاں پہنچتے ہیں، اُن کے اخلاق اور سوچ کا معیار اِس قدر پست ہو گیا ہے، تو وہ خاک قانون سازی کریں گے۔ مَیں جو انتہائی مایوس کن حالات میں بھی امید کا دامن تھامے رکھتا ہوں، اِن شرافت اور شائستگی سے گرےہوئے منظر پر بہت افسردہ اَور دِل گرفتہ ہوں۔ ہم تو اُس نبی آخر الزماں ﷺ کے اُمتی ہیں جو اخلاقِ حسنہ کا بہترین نمونہ تھے اور جن کی اخلاقی عظمت اور طاقت نے بنی نوع انسانی میں ایک پُرامن اور انتہائی پاکیزہ اِنقلاب برپا کیا تھا اور اِنصاف پر مبنی تہذیب اور حریتِ فکر سے آراستہ تمدن کی بنیاد رَکھی تھی، آج ہم اُسی تہذیب و تمدن کے وارث ہوتے ہوئے ننگِ انسانیت بنے ہوئے ہیں۔ شاید ہمیں شاعرِ مشرق کا وہ مژدہ یاد نہیں رہا کہ لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا۔
حالات جس برق رفتاری سے تبدیل ہو رہے ہیں، اُن سے یہ خطرہ پیدا ہو چلا ہے کہیں سیاسی نظام کی بساط ہی نہ لپٹ جائے۔ تاریخ سے واقف لوگ مشرقی پاکستان اسمبلی میں 1958ء کے وسط میں شدید ہنگاموں کے دوران ڈپٹی اسپیکر کی موت واقع ہونے کے حادثے کا ذکر کرتے اور یاد دِلاتے ہیں کہ اُس کے بعد ملک میں مارشل لا نافذ ہو گیا تھا۔ 14؍اور 15جون 2021ء کو پیش آنے والے واقعات میں بھی اسپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر کی بےبسی اور بےچارگی قابلِ دید تھی۔ گالیوں کی بوچھاڑ، ڈیسک بجانے کے شور اَور بجٹ کی کتابیں ایک دوسرے پر پھینکنے اور زخمی کر دینے کی دوڑ میں ارکانِ اسمبلی اُن کو سرے سے کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے نہ احکام بجا لا رہے تھے۔ ایوان کا تقدس بری طرح پامال ہوتا رہا اور سارجنٹس ایٹ آرمز بھی ہلڑبازی پر قابو نہ پا سکے۔ حکومتی پارٹی کے ارکان ہر قیمت پر اَپوزیشن لیڈر جناب شہبازشریف کو بجٹ پر تقریر کرنے سے روکنا چاہتے تھے جو کہہ رہے تھے کہ عوام کی جیبیں خالی ہیں،  بجٹ جعلی ہے اور معاشی نمو کا فائدہ صرف اُن لوگوں تک پہنچا ہے جو بنی گالا کے محلات میں رہتے ہیں۔ کیمروں کی آنکھ میں یہ مناظر محفوظ ہو گئے ہیں کہ گالم گلوچ اور مارکٹائی کے تکلیف دہ وَاقعات سینئر وزرا کی زیرِقیادت منظم کیے جا رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے جیالے ارکانِ اسمبلی اِس بےہنگم شورش کا جواز یہ پیش کرتے رہے کہ شہبازشریف کو اِس لیے تقریر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ قوم کے اربوں روپے ڈکار گئے ہیں اور عدالتِ عالیہ میں وہ ایک ایسے شخص کے ضامن بھی ہیں جو حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ملک سے باہر چلا گیا اور اَب لندن میں عیش کر رہا ہے۔
اِس بےہنگم شورشرابے سے حکومت کو فوری طور پر یہ فائدہ پہنچا کہ اب ایوان میں غریبوں کی حالتِ زار کی سنجیدہ بات ہو رہی ہے نہ تخمینے اور اہداف گہرائی کے ساتھ زیرِبحث آ رہے ہیں۔ ہمیں خوشی تھی کہ نئے وزیرِخزانہ جناب شوکت ترین نے دو ہفتوں کے اندر ہی جنگل میں منگل کر دیا تھا اور ’اچھا ہونے‘ کا احساس پیدا کرنے کی وہ ایک ماہرانہ کوشش کر رہے تھے۔ قومی اسمبلی کے اندر ہنگاموں نے پورا ذہنی منظرنامہ ہی تبدیل کر دیا ہے۔ اب تو جناب عمران خاں کے مستقبل پر سوالات اُٹھ رہے ہیں، کیونکہ وہ عوام کی طاقت کے سرچشموں کی حفاظت کرنے، اَپنی انا پر قابو پانے اور مکالمے کی فضا پروان چڑھانے میں ناکام رہے ہیں۔ اب غالباً اقتدار کا ایک نیا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے محمد مالک صاحب کو جو ٹی وی انٹرویو دیا ہے، اُس میں بعض نہایت فکرانگیز باتیں کی ہیں۔ اُن کا موقف تھا کہ فوج سے ہمیں کوئی شکایت نہیں، شکایت اُن چند اعلیٰ عہدےداروں سے جو اجتماعی فیصلے کرتے اور اِدارے کی پالیسی بناتے ہیں۔ بدقسمتی سے وہ سیاسی معاملات میں دخل دے کر قومی مفادات پر ضرب لگاتے رہے ہیں۔ ہم اُن کے ساتھ بیٹھ کر یہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ تمام ادارے آئینی حدود میں رہیں اور سب مل کر شفاف انتخابات کی ضمانت دیں۔ اِس میں سبھوں کی بھلائی ہے۔ ہم یہ کام تدریجی اور حکیمانہ انداز میں کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ انقلابی طورطریق سے اعلیٰ مقاصد کا حصول ناممکن ہے۔
بجٹ میں بلاشبہ بعض اچھے تصورات پہلی بار رُوشناس کرائے گئے ہیں۔ وزیرِخزانہ شوکت ترین نے فرمایا کہ ہم غربت کے خاتمے کا کام نیچے سے شروع کریں گے، کیونکہ ’ٹیکل ڈاؤن‘ (tackle down) کا فلسفہ ماضی میں ناکام رہا ہے، چنانچہ قومی وسائل کا رخ غریبوں اور متوسط گھرانوں کی طرف کیا جائے گا، مگر ٹیکسوں کا جو نظام بجٹ میں تجویز کیا گیا ہے، اُس کا آخرکار فائدہ سرمایہ کاروں، بڑی بڑی صنعتوں اور اَسٹاک مارکیٹ میں فعال طبقات کو ہی پہنچے گا۔ پھر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کا حصّہ معیشت میں 67.7 فی صد تک جا پہنچا ہے جن کا زیادہ تر بوجھ مڈل کلاس ہی پر پڑتا ہے، تاہم سندھ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فی صد اضافہ اور مزدور کی کم از کم اُجرت پچیس ہزار رُوپے مقرر کر کے درمیانے طبقے کی مشکلات میں کمی کا دروازہ کھولا ہے۔ بجٹ کے تخمینوں سے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ ہمارا بیرونی وسائل پر انحصار غیرمعمولی طور پر بڑھتا جا رہا ہے جبکہ داخلی وسائل کی ترقی خودکفالت کی ضامن ہے جس کے لیے انسانی وسائل کی ترقی اور اَعلیٰ درجے کی حکمرانی لازمی ہے۔ ہم آئندہ اُن تجربات کی روشن مثالیں پیش کریں گے جن سے پاکستان کے بڑے ادارے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوئے۔ اُن مثالوں کی بنیاد پر ہم سیاسی کثافتوں میں بھی حیرت انگیز کمی لا سکتے ہیں۔ سیاسی استحکام ہم سب کی مشترکہ ذمےداری ہے جس کا بھرپور شعور تمام سیاسی اور غیرسیاسی قیادتوں کو ہونا چاہیے کہ اِس کے بغیر قابلِ اعتماد معاشی نمو کا خواب پورا نہیں ہو سکتا اور جمہوریت پنپ نہیں سکتی۔ عہدِ حاضر میں جمہوریت ہی وہ پیمانہ ہے جس سے عالمی برادری کسی ملک کی قدروقیمت کا تعین کرتی ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments