ایک سوال یہ بھی کہ ….


حیرت کے جہان میں کتنا جیا جا سکتا ہے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں…. کیا یہ سوال اس قابل نہیں کہ اس کا جواب دیا جائے، اس پر گفتگو کی جائے \"dilawar\"یا اس پر مزید تحقیق کی جائے؟ یا تو یہ سوال ہی بے معنی ہے یا پھر اس سطح کا سوال ہے جس پر دنیا کے تمام دانشور، محقق، صوفی درویش خاموش ہو جاتے ہیں کہ یہ دنیا کب سے ہے، کب تک چلے گی اور اس میں ہونے والا ظلم حد سے بڑھ کر کب خاتمے کی لکیر تک پہنچے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔

وقت اچھا گزرے یا برا، گزرتا پر لگا کر ہی ہے۔ ماہ رمضان کو ہی دیکھ لیجیے۔ کچھ نے عبادت کرکے، معافی مانگ کے اور سخاوت کر کے گزار دیا اور دوسری جانب کئی لوگوں نے پہلا عشرہ ماروی سرمد اور مولوی حمداللہ کی بحث، دوسرا قندیل بلوچ اور عبدالقوی کی ویڈیو دیکھ دیکھ کر اور تیسرا عشرہ کیو موبائل اور اوریامقبول جان کی گفتگومیں گزاردیا۔ دونوں میں سے کسی نے دنیا کمائی تو کسی نے آخرت۔

 کہانی اب شروع ہوتی ہے…. کسی ملک کے بڑوں کا دعویٰ تھا کہ اُنہوں نے تعلیم، بجلی اور روشنی شہروں سے مضافات تک پہنچائی ہے یہی وجہ ہے کہ آ ج ملک کا ہر باشندہ آزادی رائے کا حق رکھتا ہے، دنیا اگر گلوبل ویلج ہے تو اس میں ایک گھر اسلامی جمہوریہ …. کا بھی ہے۔ اسی ملک کے مضافات میں بیٹھا ایک باسی جس نے ابھی آج کی مزدوری پر جانا تھا، جانے سے قبل سوشل میڈیا پر اپنا اسٹیٹس اپ لوڈ کیا۔ اس نے لکھا کہ آج پھر ابا کو ہسپتال چھوڑ کر آنا ہے، شام کو اماں کی بھی دوائی لے کر آنی ہے، بہن کو سلائی سکول بھی ڈراپ کرنا ہے۔ میرے بڑے پاناما کمپنیوں اور دوبئی کے بینکوں میں اپنی جمع پونجی رکھنے گئے ہیں، مذہبی راہنما نظریاتی کونسل میں پائے جاتے ہیں یا پھر حکومتی ایوانوں میں۔ ان کی طرف سے جو فتوے آتے ہیں خدا جانے کن کے لیے ہوتے ہیں۔ باقی ماندہ پڑھاکو خان ”عریانی اور اوریا “ سے الجھ کر سو چکے ہیں۔ میںاپنے مسائل کا فوری حل اپنی ڈگریوں اور نصاب سے ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں، نصاب وہی ہے جس کے بارے میں دانشوروں کا کہنا ہے کہ درست ہی نہیں ہے، نہ ٹھیک تاریخ لکھی گئی ہے اور نہ نصابات ترتیب دینے والے نیوٹرل ہوتے ہیں۔ خیر مجھے کیا، مجھے تو زندہ رہنا ہے اور میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہوں…. میں اس ملک کا آزاد باشندہ ہوں، تعلیم یافتہ ہوں، ایم اے ایل ایل بی کر رکھا ہے، میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں اسسٹنٹ کلرک ہوں۔ میں یہاں خوش نہیں ہوں۔ کام دوگنا کرنا پڑتا ہے اور تنخوا ہ گورنمنٹ کے نائب قاصد(پلس ٹپ )جتنی ملتی ہے۔ آج کل بڑوں کے ایک’ چھوٹے ‘سے بات چل رہی ہے۔ آنے والے الیکشن میں اس کی پارٹی کو ووٹ دے کر جتوانا ہے اور انشاءاللہ گورنمنٹ سیکٹر میں نائب قاصد بھرتی ہو جاﺅں گا تو گھر کے حالات بہت بہتر ہو جائیں گے۔ اس وقت میری اُفتادِ طبع ہی میرا اندازِ فکر ہے۔ باقی بات شام کو ہو گی۔ تب تک کے لیے خدا حافظ ….

یوں تو روزِ ازل سے ہی طاقتور کا کمزور پر ڈنڈا برستا رہا ہے اور نیچر بھی یہی بتاتی آئی ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ پہلے آدم کے بعد سے اور شاید اس سے پہلے بھی ترتیب سے زیادہ بے ترتیبی کی حکمرانی رہی ہے۔ جو بڑے موضوعات وجہ تنازع رہے ان میں ایک عورت بھی ہے۔ جہاں ہر مذہب نے اسے عزت بخشی وہاں منفی قوتوں نے اللہ کی مخلوق کو دشنام طرازیوں، الزام تراشیوں، افواہ ساز فیکٹریوں، فحاشی کے تالابوں اور نہ جانے کن کن دلدلوں سے گزارا۔ ترسی ہوئی سوچ، عورت کے اشتہار کوآگ لگا کراس سے اپنے ہاتھ بھی تاپتی ہے اور موقع ملتے ہی اس پر ہاتھ صاف بھی کرجاتی ہے۔

ان منفی قوتوں کی بھینٹ چڑھتے کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ پتا تب چلتا ہے جب زندگی موت کے ریگستان میں اُتار دی جاتی ہے۔ کوئی بلتستان کی چوٹیوں پر چلتے ہوئے پھول جیسے پاﺅں پر ابھرے ہوئے چھالوں کے کرب کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ افسوس کہ تینتیس فیصد یونین کونسل میں آنےوالی عورتیں بھی خواتین کو ان کے حقوق نہ دلا سکیں۔

بے چاری عورت نام کی انسانی جنس گھر کے کام بھی کرے، بچے بھی سنبھالے، نوکری بھی کرے، ساس سسر کا خیال بھی رکھے اور شوہر کے ناز نخرے \"yazeedi\"بھی اٹھائے پھر بھی طعنے ملتے ہیں ہیں کہ یہ تو کوئی کام ہی نہیں کرتی۔ ایک بیوہ عورت گھر کے کام کاج کے بعد بچے کو سکول لے کر جاتی ہے، پیٹ کاٹ کر داخلہ دلواتی ہے، سکول کی پرنسپل فرماتی ہے کہ بچے کی ساری چیزیں ہمارے سکول سے ہی ملیں گی۔ کتابیں، بیگ، یونیفارم، جوتے، کاپیاں اورکتابیں وغیرہ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ بھی سکول کی ہو گی۔ ماں نے جھجکتے ہوئے پوچھا کہ اور کوئی بات؟ تو پرنسپل صاحبہ نے نہایت ڈھٹائی سے کہا کہ بس بچے کی ٹیویشن کا ارینج آپ خود کرلیں۔ اب وہ کیا کرے گی اس کا کچھ پتہ نہیں اور نہ ہی حکومت سمیت کسی کو اس کی پرواہ ہے۔ مختاراں مائی سے لے کر ملتان شاہ صدر دین کی فوزیہ عظیم (موجودہ قندیل بلوچ)تک کس کو عزت ملی؟ہاں اپنے مقاصد کے لیے ایان علی کی صورت میں قربانی کی بکری بھی بنایا جاتاہے پھربقدرِ ضرورت اس کا مقدمہ بھی لڑ لیا جاتا ہے۔ لاہور کی زینت اور مری کی ماریہ جیسی بے شمار لڑکیاں جو دل میں جینے کے حسین خواب اور حسرتیں لے کر زندگی کرنا چاہتی ہیں انہیں زبردستی جینے سے دست بر دار کر دیا جاتا ہے۔ بہانہ وہی گھسا پٹا سا کہ یہ سب غیرت کے نام پر کیا…. غیرت غیرت غیرت …. اب تو کان پک گئے ہیں یہ لفظ سن سن کر…. ارے بابا! ہر مذہب نے اپنی مرضی سے بالغ لڑکی اور بالغ لڑکے کو اپنی پسند کا جیون ساتھی چننے کا حق دیا ہے۔ تمہاری غیرت تب گھاس چرنے نکل جاتی ہے جب نجی محفلوں میںغیر اخلاقی ڈانس اور مجرے ہوتے ہیں۔ نیم عریاں لباسوں میں فحش حرکتیں کرکے نوٹ کمانے والیوں پر کسی کی نظر کیوں نہیں جاتی۔ اب یہ باتیں ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ سوشل میڈیا نے بہت سے بھید عیاں کر دیے ہیں …. میں نہیں کہتی کہ اس سوال کا کون کون مخاطب ہے اور کون کون ان نا پسندیدہ معاملات میں ملوث ہے۔ مولوی، دانشور، استاد، وکیل، قاضی یا میں خود، کس کے پاس گھناﺅ نے جرائم و مسائل کے تدارک کا لائسنس ہے …. اور اگر ہے تو سب چلتا ہے والی سوچ کا خاتمہ کیوں ممکن نہیں۔ نئی نسل یہ سب دیکھ کر گمراہ ہوتی جا رہی ہے…. اللہ، اس کا رسول اور دین وہ بات کہتے ہیں جو حق ہے جو سچ ہے اور جو انسانی فلاح کے لیے عمدہ ترین ہے …. پھر اسلامی جمہوریہ ملک میں قانون بھی مذہب کے مطابق ترتیب دیا گیا۔ پر سوال وہیں کھڑا ہے …. اگر قانون بنایا گیا ہے تو اس پر عمل کیوں نہیں ہوتا …. کیوں انارکی، ابتری، مار دھاڑ، آپا دھاپی اور قانون شکنی کا راج ہے۔ کیوں حالات کی ماری ہوئی جے چارگی کی تصویر بنی عورت کے بین اور چیخیں سنائی نہیں دیتیں؟ کون جواب دے گا مولوی، دانشور، استاد، وکیل، قاضی یا میں خود….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments