لوٹ کھسوٹ کی کہانیاں اور دشوار ہوتے معمولات زندگی


میری ناقص رائے میں بات اب نواز شریف اور آصف علی زرداری کو سیاست سے ’’مائنس‘‘ کرنے تک محدود نہیں رہی۔نواز شریف کے ضمن میں یہ عمل تو جولائی 2017ء میں ہوچکا ہے۔ پانامہ دستاویزات کے انکشاف کے بعد چلے طویل عدالتی عمل کے بعد وہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں تاحیات نااہل ہوگئے۔

جیل کی سزائیں انہیں نااہلی کے بعد سنائی گئی ہیں۔ ان سزائوں کے خلاف اپیلوں کے لئے مختلف عدالتی مراحل سے گزرنا ہوگا۔ فرض کیا کہ دو یا تین برس کی قانونی مشقت کے بعد وہ نیب کے لگائے الزامات سے بری ہوجائیں تو بھی نااہلی اپنی جگہ قائم رہے گی۔اس کے خلاف اپیل کا کوئی فورم موجود نہیں ہے۔

نواز شریف کے نام سے منسوب پاکستان مسلم لیگ والوں کو مگر یقین تھا کہ عام انتخابات میں ان کی جماعت اکثریت حاصل کرنے کے بعد وفاق اور پنجاب میں دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس کامیابی کو پارلیمان کی مدد سے کسی مناسب موقع پر نئی قانون سازی کے ذریعے شاید نواز شریف کی نااہلی ختم کروانے کے لئے استعمال کیا جاسکے گا۔

25 جولائی 2018کے انتخابات نے ان کی امیدوں پر پانی پھیردیا۔نوازشریف کے نام سے منسوب جماعت کے جہاندیدہ اور تجربہ کار تصور کئے لوگ تاہم اس گمان میں مبتلا رہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے باعث پیدا ہونے والے خلاء کو شہباز شریف پُرکرلیں گے۔اسی وجہ سے وہ اپنی قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف منتخب کروانے کی ضد میں مبتلا رہے۔

شہباز صاحب یہ منصب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو نیب نے انہیں گرفتار کرلیا۔ یہ کالم لکھتے وقت بھی تکنیکی اعتبار سے وہ اس کی حراست میں ہیں۔شہباز شریف کی حراست حمزہ شہبازشریف کو آگے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوسکتی تھی۔ان کے خلاف بھی لیکن نیب کی انکوائریاں شروع ہوچکی ہیں۔

قیادت شریف خاندان تک ہی محدود رہنا ہو تو مریم نواز شریف کے امکانات بہت روشن تھے۔ وہ مگر احتساب عدالت کے سنائے ایک فیصلے کے خلاف اپیل کی وجہ سے ان دنوں جیل سے باہر ہیں۔ یہ آزادی ٹھنڈے دل سے سوچیں تو عارضی بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ شریف خاندان کے نمایاں افراد کے علاوہ نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کے خواجہ سعد رفیق جیسے متحرک افراد نیب کی حراست میں جاچکے ہیں۔

اسلام آباد میں یہ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ آئندہ چند روز میں اس جماعت کے پانچ سے سات مزید افراد بھی نیب کے شکنجے میں جکڑے نظر آئیں گے۔ ایسا ہوگیا تو قومی اور پنجاب اسمبلی میں بھاری بھر کم موجودگی کے باوجود نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت منتشر اور پریشان نظر آئے گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے حوالے سے ہم کئی برس سے ’’مائنس زرداری‘‘ فارمولے کی بات سن رہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد یہ ممکن نہ رہا تو امید دلائی گئی کہ شاید بلاول بھٹو زرداری اپنے والد کو دورِ حاضر کا شاہ جہاں بنادیں گے۔ بلاول اس دور کے اورنگزیب مگر بن نہیں پائے۔

ان کی ممکنہ پرواز کو جعلی بینک اکائونٹس کے حوالے سے تیار ہوئی دستاویزات نے دشواربنادیا ہے۔اُڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہوگئے والا قصہ نظر آرہا ہے۔بینک اکائونٹس کے حوالے سے تیار ہوئی دستاویزات کو ذرا غور سے دیکھیں تو سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی ان کا اہم ترین کردار نظر آرہے ہیں۔

ان دستاویزات کی روشنی میں نیب متحرک ہوئی تو ان کا وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز رہنا ناممکن نہ سہی تو دشوار ترہوجائے گا۔آصف علی زرداری اور بلاول باہم مل کر انہیں سیاسی قوت فراہم نہیں کر پائیں گے۔ پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہوجانے کے بعد بھی منتشر ہوئی نظر آئے گی۔

مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کی ’’مارچ(2019) میں جھاڑوپھرنے‘‘والی بات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ سوال مگر یہ اُٹھتا ہے کہ اس کے بعد کیا۔ یہ وہ سوال ہے جس کا ان دنوں کے نیوزسائیکل میں تذکرہ نہیں ہو رہا۔اپریل 2016 سے جولائی2018 تک ہمارے بے باک صحافی قو م کو شریف خاندان کی دولت کے ’’حقیقی ذرائع‘‘ سمجھاتے رہے ہیں۔

اب کئی دنوں تک ہمیں ’’فیک بینک اکائونٹس‘‘ کی حقیقت کو ان کی فطانت کی مدد سے سمجھنا ہوگا۔شریف خاندان اور آصف علی زرداری کی مبینہ لوٹ کھسوٹ کو بے نقاب کرتی کہانیاں روزمرہّ زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی مشقت میں مبتلا افراد کو یقینا تھوڑی تسکین پہنچاتی ہیں۔

قدیم یونان میں ڈرامے کی ایجاد کا مقصد ہی خلق خدا کو Catharsisکے ذرائع فراہم کرنا تھا۔ ان دنوں کے 24/7 چینل کے ٹاک شوز دورِ حاضر میں وہی کردار سرانجام دے رہے ہیں۔تلخ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ میرے اور آپ جیسے عام افراد کو ہر ماہ بجلی اور گیس کے بل دینا ہوتے ہیں۔

شریف خاندان یا آصف علی زرداری کی ’’لوٹ کھسوٹ‘‘کو بیان کرتی کہانیاں ہمیں یہ بل ادا کرنے کے قابل نہیں بناتیں۔امید تو ہمیں یہ دلائی گئی تھی کہ ’’قوم سے لوٹی ہوئی دولت‘‘ ریاستی خزانے میں واپس آئے گی۔

لوٹی ہوئی رقوم کو بازیاب کرلینے کے بعد غیر ملکی قرضوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔قانون کی بالادستی اور بے رحم احتساب اس ملک میں ایسا ماحول پیدا کرے گا جو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ داروں کو مزید سرمایہ کاری کی ترغیب دے گا۔ روزگار کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔معاشی میدان میں رونق لگ جائے گی۔ یہ ہوتا مگر نظر نہیں آرہا ہے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے یقینا ہمیں معاشی سہارا دینے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔چین سے بھی اس ضمن میں ٹھوس مدد کی امید ہے۔ IMFسے معاملات مگر طے ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ اسد عمر صاحب بہت ہوشیاری سے ہمیں بلکہ اشاروں اور کنایوں میں یہ بتانا شروع ہوگئے ہیں کہ شاید جنوری میں ایک اور ’’منی بجٹ‘‘ قومی اسمبلی سے پاس کروانا پڑے۔

مقصداس منی بجٹ کا کم از کم 200ارب روپے کی اضافی رقوم جمع کرنا ہے۔ ان میں سے 140ارب روپے کی خطیر رقم بجلی کی قیمت بڑھاکر جمع کی جائے گی۔

بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے سے آپ اور میرے جیسے لوگ یقیناً بلبلااٹھیں گے۔ہمارے غصے کو مگر نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت یا پیپلز پارٹی کے لوگ کوئی ’’تحریکی‘‘ صورت نہیں دے پائیں گے کیونکہ تحریک انصاف کے ذہین و فطین وزراء ہمیں آزاد صحافت کی مدد سے اس امر پر قائل کرچکے ہوں گے کہ ماضی کے دس سالوں میں ہوئی ’’لوٹ کھسوٹ‘‘ کے باعث انہیں خزانہ خالی ملا۔

علم معاشیات کا مگر ایک اصول ہے۔ ’’قانونِ تقلیل افادہ‘‘اس کا نام ہے میں نے اس قانون کو اکثر ہماری حکومتوں کی جانب سے بہت محنت سے بنائے بیانیہ پر لاگو ہوتے دیکھا ہے۔نواز شریف کے بعد آصف علی زرداری بھی جیل چلے گئے تو بالآخر اپنے بجلی اور گیس کے بلوں کو دیکھنے کے بعد ہم یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے کہ بدعنوان افراد کو ان کی ’’لوٹ کھسوٹ‘‘ کی سزا مل گئی۔

میرا روزمرہّ زندگی کی ضروریات کو پورا کرنا مگر اب بھی اتنا دشوار کیوں ہورہا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت یہ سوال اُٹھنے کے امکانات کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).