یہ کنہاڑ دریا ہے یا ہیروں کا ہار


اس نے ”ملکہ پربت“ کی کوکھ سے جنم لیا ہے، بابوسر کے سامنے جنت نظیر وادیوں میں رڑہنا شروع کیا ہے اور جب حسین و جمیل ”لولوسر جھیل“ کے میٹھے پانیوں میں پہنچا ہے تو یکایک جوان ہوگیا ہے۔ ”جلکھنڈ وادی“ کو کراس کرتے ہی رفتار کو تھوڑا تیز پکڑتا ہے، اب اس کے سامنے پہاڑ بھی رائی ہیں۔ یہ ہمیشہ جوان رہنے والا دریا ہے اور اسے ”کنہاڑ“ کہتے ہیں۔ ہاں یہ کنہاڑ ہے، شہزادہ دریاء، سوہنا دریا۔ کنہاڑ دریا جس حصے سے جنم لیتا ہے، جغرافیائی طور پر اس علاقے کو ”سندھو کا آبی علاقہ“ (Indus Watershed Area) کہتے ہیں۔

جوانی اس کا کمال ہے، حسن اس کا جمال ہے، وہ اکیلا ہی نکلتا ہے مگر پھر ہر گام اس سے چشمے، نالے، خواڑ اور چھوٹے دریا ملتے جاتے ہیں۔ دنیا کی خوبصورت جھیلوں میں سے ایک ”سیف الملوک“ کے پانیوں کو ناران کے قریب کنہاڑ میں ملنے کا خوبصورت ترین منظر دیکھ کر عاشق بھی دیوانے بن جاتے ہیں۔ اسی حسناکی نے شاید ”ناران“ کو جنم دیا ہوگا۔ سندھی میں کہاوت ہے کہ ”بہادر جوان بنو، یا کسی جوان کے محلے میں جاکر رہو“ (مڙس ماڻھو ٿیڻ گھرجی یا ڪنھن مڙس ماڻھو جی پاڙی ۾ وڃی رہجی۔ )

اس لئے آسپاس سے سب چشمے آکر کنہاڑ میں پناہ لیتے ہیں۔ اسے کنہاڑ کہتے ہیں، مانسرہ کا ”چیتا دریا“ اس کی رفتار کی کیا بات ہے، ”ٹراؤٹ“ کے سوا کسے کو ٹکنے نہیں دیتا۔ خاموشی اس کی فطرت میں ہے ہی نہیں، دھاڑتا ہی رہتا ہے اور آگے بڑھتا رہتا ہے ۔ اسے کنہاڑ کہتے ہیں۔ بہادر ہمیشہ خوبصورت ہوتے ہیں، کیونکہ نفاست کے ساتھ بہادری بھی اصل میں خوبصورتی کا اہم حصہ ہے۔ اس لئے کنہاڑ کے پڑوسی اسے ”نین سکھ“ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں، اور واقعی کنہاڑ سیاحوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک دیتا ہے۔

یہ کنہاڑ ہے، سفید اور نیلگوں پانیوں کو اپنے آپ میں سموتا جب پہاڑوں کو چیرتا آگے بڑھتا ہے تو پہاڑوں کو چوٹیوں پر بسنے والوں کو اک خوبصورت ”چاندی کی پازیب“ کی طرح لگتا ہے۔ جبکہ ہم جیسے میدانی لوگوں کو تو کنہاڑ ”ہیروں کا ہار“ لگتا ہے۔ ۔ ۔ یہ کنہاڑ ہی تو ہے جو ہماری بنجر زمینوں میں سونے اور ہیرے جیسے اناج اگاتا ہے۔ یہ کنہاڑ ہے، پربت سے نکلتا ہے، خیبر پختونخواہ کی حسیں وادیوں سے گھومتا 166 کلومیٹر طویل سفر کرتا جنت نظیر کشمیر میں جاکر مظفرآباد کے قریب جہلم دریا میں مل جاتا ہے۔ یہ بھی اس کا کمال اور بڑاپن ہے کہ اپنے سے بڑے دریا کے آگے آرام سے جھک جاتا ہے، سرینڈر کرتا ہے، اپنا آپ اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ ”سندھو“ بننے کے لئے خود کو ”جھلم“ بنا لیتا ہے۔ ہمیں کنہاڑ ہمیشہ سے بھاتا ہے۔ دعا ہے اس کے جوانی پر کبھی بڑھاپا نہ آئے، اس کی سندرتا کبھی ماند نہ پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).