بی بی کے قاتل کیوں پکڑے نہیں جا سکے؟


محترمہ بینظیر بھٹو کے لیاقت باغ جلسے سے نصف گھنٹہ قبل ہم نیوز کے رپورٹر اور روزنامہ جنگ کی اپنی خاتون کولیگ کے ساتھ قریب کے ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ہماری گفتگو کا موضوع رات کو خفیہ ایجنسی کے عہدیدار کی بینظیر بھٹو سے ملاقات اور اسی ہفتہ کوئٹہ میں بینظیر بھٹو کی جلسہ گاہ کے باہر ہونے والا بم دھماکہ تھا۔ پیپلز پارٹی کے بیٹ رپورٹر ہونے کی وجہ سے ہمیں پتہ تھا رات کو بینظیر بھٹو کو جلسہ گاہ میں نہ جانے کا مشورہ دیا گیا تھا لیکن بھٹو کی بیٹی نے صاف انکار کر دیا تھا۔ بی بی کا خیال تھا کہ ”یہ مجھے قتل نہیں کر سکتے“ لیکن بینظیر کو قتل کر دیا گیا۔

ہم تینوں رپورٹرز کا خیال تھا آج پھر بینظیر بھٹو پر حملہ ہو گا۔ اس دن حملہ ہوا اور بینظیر بھٹو کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ کراچی میں کار ساز حملے کی تحقیقات کے دوران یہ بھی پتہ چلا تھا بی بی کی ٹرک پر موجودگی کے دوران ایک شخص نے کارکن کے روپ میں نوعمر بچہ بینظیر کے پاس پہنچانے کی کوشش کی تھی لیکن ٹرک سے انکار کر دیا گیا اور بینظیر اس کے فوری بعد بم پروف ٹرک کے اندر چلی گئیں۔ خیال ظاہر کیا گیا تھا یہ مردہ بچہ تھا جس میں بارود بھرا گیا تھا۔ احمد شاہ مسعود کو افغانستان میں جس حملہ آور کے ذریعے قتل کیا گیا تھا اس کے جسم میں آپریشن کے ذریعے بارود چھپایا گیا تھا۔ ایک عرب شہزادے کو بھی اسی طرح بارود بردار کے ذریعے قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

بینظیر بھٹو کے کارساز حملے کے ایک ہفتہ کے اندر کراچی کے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ایک سول تحقیقاتی ایجنسی کے دو افسران بھی دو ہفتے کے اندر نامعلوم قاتلوں کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔ شاہراہ فیصل پر بجلی بند تھی اور کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے متعلقہ گرد اسٹیشن کا ایک افسر بھی کارساز حملے کے ایک ہفتہ بعد نامعلوم قاتلوں کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گیا۔ آج تک نہ کارساز حملے کے ذمہ دار گرفتار ہوئے اور نہ ان سرکاری اہلکاروں کا کوئی قاتل قانون کی گرفت میں آیا۔

بینظیر بھٹو کی لیاقت باغ میں شہادت نے بھی بہت ساری جانیں لیں۔

جو حملہ آور اور سازش میں ملوث لوگ گرفتار ہوئے ان کی دوسری کڑی کے تمام کردار مختلف جگہوں پر مارے گئے اب جو لوگ سامنے ہیں جنہیں عدالت کی طرف سے عدم ثبوت کی بنا پر رہائی کا حکم دیا گیا ان کے ہنڈلر، سہولتیں فراہم کرنے والے سب کے سب مارے جا چکے ہیں۔ پبلک پراسیکوٹر بینظیر کے قاتلوں کے قدموں کے نشانات تک پہنچ گیا لیکن وفاقی دارالحکومت میں اس سرکاری وکیل کو نامعلوم قاتلوں نے اپنی راہ سے ہٹا دیا۔ خالد شہنشاہ سے تحقیقات کی ضرورت تھی جلسہ گاہ میں بینظیر بھٹو کے پیچھے کھڑے ہو کر پراسرار اشارے شاید قاتلوں کی نشاندہی کر دیتے لیکن یہ شخص بھی خاموش قاتلوں کی بھینٹ چڑھ گیا اور جب تک یہ زندہ رہا کسی تحقیقاتی ادارے نے اس کے پراسرار اشاروں کی تحقیقات نہیں کیں اور اگر کسی ادارے نے کوئی تفتیش کی بھی تو اس کا کوئی سرکاری ریکارڈ کہیں پر موجود نہیں۔

محترمہ بینظیر بھٹو کوئی بے آسرا خاتون نہیں تھی، بھٹو کی بیٹی کا ایک بین الا اقوامی چہرہ تھا پاکستان کے کسی فوجی جنرل کو وہ عالمی عزت اور احترام کبھی بھی حاصل نہیں ہوا جو بینظیر بھٹو یا ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو حاصل تھا، لیکن اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کو سڑک پر قتل کر دیا گیا اور مختصر مدت میں وقوعہ کی جگہ کو دھو دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم نے جائے وقوعہ کو دھونے کا حکم ”کس نے دیا“ کے متعلق ایک پولیس افسر کا نام لکھے بغیر کہا تھا یہ حکم جی ایچ کیو سے ایک افسر نے دیا تھا۔

جنرل مشرف نے چند سال قبل ایک انٹرویو میں امکان ظاہر کیا تھا اسٹیبلشمنٹ کے کچھ عناصر ملوث ہو سکتے ہیں لیکن بینظیر کے قتل میں خود ملوث ہونے کی جنرل مشرف نے ہمیشہ واضح انداز میں تردید کی۔

بینظیر کے قتل کا سب سے المناک حصہ اس میں آصف علی زرداری کو ملوث کرنا تھا۔ مقتول اپنے قتل سے پہلے خود کہہ رہا ہے ”مجھے قتل کیا گیا تو اس میں فلاں بندے یعنی جنرل مشرف ملوث ہو گا“ اور پاکستانی عدالت میں بی بی کے دوست نے اس کی گواہی بھی دی ”میرے سامنے بینظیر بھٹو کو جنرل مشرف کا فون آیا تھا“ لیکن پروپیگنڈہ آصف علی زرداری کے ملوث ہونے کا کیا گیا اور دلیل یہ دی گئی قتل کا فائدہ آصف علی زرداری کو ہوا تھا۔ ایک دلیل بینظیر بھٹو کے پوسٹ مارٹم کے نہ کرنے کی یہ دی گئی ”آصف علی زرداری نے اجازت نہیں دی تھی۔ عدالت میں اس معاملہ پر بھی بحث ہوئی تھی اور عدالت نے کہا تھا پوسٹ مارٹم کرانا حکومت کی ذمہ داری تھی آصف علی زرداری کی نہیں۔

بی بی کے قتل کے اگلے روز مشیر داخلہ کی پریس کانفرنس تھی بینظیر بھٹو گاڑی کا لیور لگنے سے شہید ہوئی ہیں۔ ایک خود کش حملہ ہوا اس پاس لاشیں بکھری ہوئی ہیں تصاویر میں ایک حملہ آور پستول سے بینظیر کو نشانہ بنائے نظر آرہا ہے اور ظالمین گاڑی کے لیور سے جان جانے کا پروپیگنڈہ شروع کر رہے ہیں واہ بھی واہ۔

جنرل مشرف پر حملہ ہوا جائے وقوعہ کو ایک ہفتہ تک بند رکھا گیا اور فرانزک تحقیقات سے تحقیقاتی ادارے ملزموں تک پہنچ گئے جو آج بھی جیلوں میں ہیں لیکن یہاں دو مرتبہ کی سابق وزیراعظم کو مار دیا گیا ایک گھنٹہ کے اندر جائے وقوعہ کو دھو دیا گیا مختلف کردار یکے بعد دیگرے قتل کر دیے جاتے ہیں لیکن نہ پیپلز پارٹی کی اپنی حکومت کوئی نشاندہی کرنے سے قاصر رہی بلکہ کسی سرکاری ادارے نے بھی اصل کرداروں کو بے نقاب کرنے کی جرات نہیں کی۔

پشاور کے ایس پی کی اغوا کے بعد تشدد زدہ لاش افغانستان سے ملی اس معاملہ کے لئے قائم کردہ جے آئی ٹی متعدد اجلاسوں کے بعد تاحال اس بات کا تعین بھی نہیں کر پائی طاہر داوڑ کو اغوا کہاں سے کیا گیا تھا۔ جب چوہدری ذوالفقار کو قتل کرنے والوں کا سراغ ملے گا، جب مرتضی بھٹو کے قتل کے بعد قتل ہونے والے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کے قاتلوں کا سراغ ملے گا اور جب ضیا الحق کے قاتلوں کی نشاندہی ہو گی تو ممکن ہے بینظیر بھٹو کے قاتلوں کی طرف اشارہ کرنا بھی ممکن ہو جائے فی الحال تو سب ہاتھ دستانوں میں ہیں انگلیوں کے نشان ملنا ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).