نئے سال کی خوشی ہم کیوں منائیں ؟


نئے سال پر کیا لکھوں سمجھ سے بالاتر ہے ۔ وہی مہنگائی کی چکی میں پستے انسان ،وہی یکسانیت ،وہی حیوانیت،وہی جذباتیت،وہی بیچارگی،وہی لاچارگی اِن سوچِ محرومیوں کے مرہون منت ذہن میں اس سوال کا کلبلاناکوئی تعجب خیزی نہیں کہ کیوں پاکستان میں ہر 31دسمبر کو آہوں، سسکیوں ،نامحرومیوں ،نامُرادیوں کا آخری دن سمجھ لیا جاتا ہے اورہر یکم جنوری کو خوامخواہ خوشی کا دن تصور کر لیا جاتا ہے؟
سوچنے کا مقام تو یہ ہے کہ کیا یکم جنوری کو ہیپی نیو ائیر کے نام سے خوشیوں کا گہوارہ بنانایا اُس دن کی مناسبت سے خوشیاں منانا ہمارا حق ہے؟یہ تو اُن کا حق ہوتا ہے جہاں ریاست مستحکم ہوتی ہے۔جہاں مزید استحکام اور بلند حوصلہ و استقامت کے عزم کے مابین کوئی آہنی دیوار حائل نہیں ہوتی،جہاں فریادی یہ جُرات کرسکتا ہے کہ شاہی محل کی لٹکتی گھنٹی سے لٹک جائے گا اور اُس وقت تک بجاتا رہے گا جب تک انصاف کا دیوتا مسند انصاف پر براجمان نہ ہو جائے۔ جہاں جمہوریت کا حقیقی حُسن اِس طرح نظر آتا ہے کہ فریادی کوفو ری انصاف کی فراہمی کی خاطر انصاف کا دیوتا کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتا ۔جہاں اشیائے خوردونوش حفظانِ صحت کے اُصولوں کے مطابق نہ ہو تو اُس چیز کو عوام کی پہنچ سے دور رکھنے کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ جہاں امیر و غریب کے لئے قانون ایک ہو تا ہے۔جہاں انصاف سستا ہوتا ہے۔جہاں جھوٹ کو گناہ کبیرہ نہیں تو شرم کا باعث ضرور سمجھاجاتا ہے،جہاں عزت نفس کی اہمیت ہوتی ہے۔جہاں تعلیم کا تناسب سو فیصد نہیں تواسی فیصد تو ہے۔
سال کے تین سو پینسٹھ دن دھوپ اور چھاوں ،صبح و شام،خوشیوں اور المیوں کا امتزاج ہوتے ہیں،صرف سال کا گزر جانا معنی نہیں رکھتاسال کا اختتام ایک زمانہ گزرنے کا اختتام ہوتا ہے۔یہاں تو زمانے گزر چکے ہیں خوش گُمانیوں کے مبتلائے فریب میں،ہم وہ بد نصیب قوم ہیں جن کی جھولی جنوری تا دسمبرصرف المیوں و سسکیوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہوتی ہیں ۔یہاں ریاست کا مستحکم ہونا تو دور کی بات ہے ریاست کی رٹ داؤ پر لگی ہوتی ہے،جتھے کے جتھے رِٹ کو چیلنج کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ریاست کی رِٹ بس کمزور پر گُرز بن کر ٹوٹنے کے لئے ہوتی ہے ۔
نئے سال میں نیا پاکستان کی خواہش بھی اب تک دیوار گیری ہی ثابت ہوئی اُمید کی کرنیں بھی حسرتوں کے بازار میں کہیں گُم ہوگئیں۔پچھلے زمانے میں بھی وہی ہوا جو اس وقت تک ہورہا ہے ۔ منصف اعلیٰ خود فرماتے ہیں کہ” بچے اسکولوں میں منشیات استعمال کر رہے ہیں”عالمی منڈی کے تناظر میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے سبب غربت کی شرح میں جو کئی گنا اضافہ ہوا ہے توکیا یہ خوشی منانے کامقام ہے ؟ ترقی کی راہیں بھی دریافت ہوئی ہیں پر مجرمانہ سوچوں کی دہلیز تک،تین سال پُرانا گو شت بھاری رقم کے عوض پُرشکم کیا جارہا ہے معصوم بچوں کو موت کی وادی کی جانب دھکیلا گیا ،زندگی بچانے کے بجائے موت کی ادویات مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں،سکوں کی جھنکار کے سوا ہمیں اب کچھ سُنائی نہیں دیتا، چھن چھنا چھن کی آواز ہمارے دل و دماغ پر قابض ہو چکی ہے اور اسی کیفیت میں نئے سال کی آمد آمد ہے ،31دسمبر کی رات گھڑیوں کی سویاں ایکدوسرے پر سوار ہوتے ہی پورا پاکستان دھماکوں اور فائرنگ کی آواز سے گونج اُٹھے گا ،خوشیوں کے آسرے میں پھر نیا سال شروع ہو جائے گا میرا سوال پھر وہی ہے کیا ہمیں زیب دیتا کہ ہم نئے سال کی آمد پر خوشیاں منائیں ؟
ہم نے پچھلے سال کون ساتیر مارا ہے جس پر ہمیں خوشی منانے کا حق حاصل ہوا ہو۔ہم نے کسی بھی شعبے میں کوئی نمایاں کارنامہ ہائے انجام دیا ہویا جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کوئی خوشی کا سامان عوام کو مہیا کیا ہو،کسی سائنسدان نے کسی شعبے میں کوئی ایجاد کی ہو،کسی مفکر نے انقلابی سوچ کا کوئی پیغام دیا ہو،کسی شاعر نے کوئی انقلابی نظم عوام کے شعور کو اُجاگر کرنے کو دی ہو،کسی سیاستدان نے کوئی ایسا انقلابی نظام دیاہو جس سے موجودہ اور آنے والی نسلوں کے واسطے فائدے کی امید ہی بر لائی ہو، کم سے کم روٹی ،کپڑا اور مکان کے پرانے عہد وپیماں کی لاج رکھ لی گئی ہوتی۔
مقامات مقدسہ پر بھی پاکستانی مسلمانوں نے خوشیوں کی طلب میں دعاؤں کے پہاڑ کھڑے کئے جنھیں قبولیت کے لئے آسمان تک جانا ہوتے ہیں لیکن ہماری مجرمانہ سوچوں کے باعث اُن دعاؤں کوہر سال واپس زمین پر پھینک دیا جاتا ہے ۔آئیں سال نو کی آمد سے قبل ہم عہد کریں کہ اپنی مجرمانہ سوچوں کو ملکی مفاد پر قابض ہونے نہیں دیں گے ،آئیں عزم کریں کہ آئندہ کے یکم جنوری کو ہمیشہ کی طرح موجودہ31دسمبر کی مانندتاریک مستقبل کا تسلسل نہیں بننے دیں گے،ہماری جھولی میں خوشیاں ہوں گی تو خوشیاں منائیں گے ورنہ ہر سال کی طرح اس سال بھی ڈھکوسلہ ہی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).