عمران خان وزیر اعظم بن گئے، ہماری دلی خواہش پوری ہو گئی


اگر 1997 کے الیکشن کا خیال آئے تو یہ ہمارے پرائمری سکول کا زمانہ تھا اور اس کے بارے میں صرف یہ ذہن میں آتا ہے کہ ہمارے خاندان والوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا جو کہ شکست کھا گئی تھی اور مجھے یاد ہے کہ اس ہار نے کچھ دنوں تک دماغ کو جکڑے رکھا تھا کہ ”آپاں پیپل پالٹی نوں بوٹ پائے سی تے او ہر گئی اے“ خیر کچھ عرصہ بعد اس الیکشن کو بھول بھال گئے، پھر 1999 ہو گیا لیکن اس کے بارے میں بھی اتنا یاد ہے کہ بس جمعہ کے خطبے میں مولوی صاحب نے کہا تھا کہ ”اینے بہت ات چکی سی، ہن آپ ای چکیا گیا اے نا فِر“ اور ہمیں اتنا ادراک ہوا تھا کہ نواز شریف کی بات ہو رہی ہے اور اس نے بہت ہی غلط کام کیے تھے۔ اس کے بعد خوشحالی کا دور شروع ہوتا ہے۔

جب کالج پہنچے تو لیکچرز کے درمیان کافی وقت ہوتا تھا اس دوران لائبریری کے سامنے لگے اخبار کی ورق گردانی مشغلہ بن گیا تھا۔ محب وطن کالم بہت اچھے لگتے تھے اور ان کو پڑھنا معمول بن گیا جن کی وجہ سے ہم پر یہ حقیقت کھلی نواز شریف اور بے نظیر ملک دشمن ہیں اور لیکن مشرف جو امریکہ کا پٹھو بنا ہوا تھا یہ بھی کچھ اچھا نہ لگتا تھا۔ خیر اسی سوچ کے ساتھ ہمارا کالج کا زمانہ بیت گیا لیکن اب ہم مشرف سے دلی طور پر بدظن ہو گئے تھے اور بینظیر ونواز کو ملک دشمن سمجھتے تھے۔ اس لیے کچھ سمجھ نہیں آ تی تھی کہ کیا ہو تو ملک کے لیے بہتر ہوگا۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

ایک ہی صورت نظر آتی تھی، عمران خان! اگر کبھی وزیر اعظم بن جائے تو بس پھر ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوگی۔ ہم یونیورسٹی میں پہنچ چکے تھے الیکشن کا ڈول بھی ڈل چکا تھا۔ مجھے یاد ہے ہم اپنے ہوسٹل کے کمرے میں بیٹھے تھے جب بینظیر کے بم دھماکے میں مارے جانے کی خبر ملی لیکن اس خبر نے کچھ خاص اثر نہیں کیا اور ہم نے اسے بھی معمول کی خبر ہی سمجھا کہ ان دنوں بم دھماکے معمول کی بات ہی تھی۔ لیکن جب سبھی کی دیکھا دیکھی خبریں سننے کامن روم میں پہنچے تو احساس ہوا کہ یہ کوئی عام بم دھماکہ نہیں تھا بلکہ ”ایٹم بم“ تھا جو ملک پر پھینک دیا گیا تھا۔ خدا گواہ ہے کہ مجھے اس وقت بینظیر کے قد کاٹھ کا احساس ہوا۔

خیر زرداری صاحب کی حکومت بن گئی جو دوسرے محب وطن لوگوں کی طرح ہمیں بھی ناگوار گزرتی تھی، فیس بک چلانا سیکھ لیا تھا اور شیخ رشید صاحب کے فین بن چکے تھے جو روز ہی خبر نما پیشین گوئی کر تے تھے کہ حکومت یہ گئی اور وہ گئی لیکن حکومت کو نہ تو جانا تھا اور نہ ہی گئی۔ روزانہ اخبار کی مین سرخی چیف جسٹس صاحب سے متعلق ہوتی تھی اور ایک تشنگی سی تھی کہ حکومت کب ختم ہو گی۔ پھر وہ مبارک گھڑی آن پہنچی جب گیلانی صاحب کو رخصت کر دیا گیا اور ہم چیف جسٹس صاحب کی اس ذہانت کا تصور کر کے عش عش کر اٹھے جو انہوں نے گیلانی صاحب کو سزا دیتے ہوئے دکھائی تھی کہ ”یہ عدالت گیلانی صاحب کو عدالت کی برخاستگی تک قید کی سزا سناتی ہے اور عدالت برخاست کی جاتی ہے“ ہم خوش تھے لیکن اگلے وزیراعظم ”راجہ پرویز اشرف صاحب“ جو کہ کرائے کے بجلی گھر وں کی وجہ سے کافی بدنام ہو چکے تھے۔

اس وقت ہمیں احساس ہوا کہ زرداری صاحب نے گیلانی کو نا اہل کرنے کا بدلا قوم سے لے لیا ہے اور یہ کہ اس طرح حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے بلکہ کچھ لوگوں کو بقول شیخ رشید اب ستو پینے بند کر دینے چاہئیں لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا کو منظور ہو۔ اس دوران مختلف کتابوں کا مطالعہ بھی جاری رہا، نسیم حجازی کے ناول شاہین، محمد بن قاسم، اور تلوار ٹوٹ گئی، آخری چٹان وغیرہ تاریخ سمجھ کر پڑھ گئے۔ لیکن ایک چیز کے بارے میں دل ہمیشہ ملول رہا کہ جتنے بھی بڑے جرنیل اسلامی تاریخ میں آئے ان کا انت کچھ ہمیں پسند نہیں آیا، محمد بن قاسم ہوں یا قتیبہ بن مسلم، موسی بن نصیر ہوں یا طارق بن زیاد سبھی کے ساتھ آخر میں کچھ اچھا نہیں ہوا، اب یہ ہمیں نہیں پتہ کہ اس میں ان کا اپنا کردار کتنا تھا۔

جمہوریت کے بارے میں بھی بہت ساری باتیں سننے کو ملتی رہیں جو دل کو لگتی بھی تھیں، یعنی ”جمہوریت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے“ لیکن بیٹھے بیٹھے یونہی اک خیال آیا کہ اگر بندوں کو تولنا ہو تو کیا طریقہ کار ہو سکتا ہے، کچھ سمجھ نہ آیا تو دل کو کہا کہ دل بھائی تولنے کو رہنے دو بس گننے پر ہی گزارا کرو۔ اور یہ کہ ”چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر“ لیکن پوری نظم پڑھی تو پتہ چلا کہ یہ تو شیطان کے کسی مشیر کا قول ہے جسے علامہ اقبال نے نظم کیا ہے لیکن یار لوگ اسے جمہوریت کے بارے میں علامہ صاحب کی رائے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

اسی دوران الیکشن پھر ہو گئے اور میاں صاحب کی حکومت آگئی، آرمی چیف بھی بدل گئے۔ فیس بک کی خبروں نے نیا سٹائل اختیار کیا، ”فلاں یہ شرٹ فلاں دن کیوں پہنتے ہیں؟ جاننے کے لیے کلک کریں“، ”فلاں نے فلانے خطرناک علاقے میں گاڑی کا شیشہ کھلا رکھا اور عوام کو ہاتھ ہلا کر سلام کیا، ویڈیو دیکھینے کے لیے کلک کریں“ ایک دو خبروں پر تو کلک کیا لیکن پھر ان کی سمجھ آگئی۔ میاں صاحب نا اہل ہوگئے، الیکشن ہوگئے اور خان صاحب کی حکومت آ گئی، ہماری وہ والی خواہش پوری ہو گئی جو ہم نے یونیورسٹی کے پہلے سال میں دل میں پال رکھی تھی لیکن اس دوران ابوالکلام کی قولِ فیصل، غبارِ خاطر وغیرہ سے گزر چکے ہیں، ”ہیر وارث شاہ“ کا قاضی اور ہیر کے درمیان ہونے والا مکالمہ سائیں مشتاق حسین کے چمٹے کے ساتھ ہمارے دل کو لبھاتا ہے اور ”کلیات ِفیض“ ہمارے ہاتھ لگ چکی ہے اور ہم نظم بعنوان ”سیاسی لیڈر کے نام“ پہ پہنچ چکے ہیں دل چاہتا ہے کہ آپ سے شئیر کریں اور اسے محترمہ بے نظیر بھٹو، بشمول تمام سیاسی لیڈروں کے جنہوں نے عوام کے حق حکمرانی کے لیے کام کیا، کو ڈیدیکیٹ کریں۔ جب حضرتِ دل کا یہ ارادہ ہے تو ہم پس و پیش کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ پیش خدمت ہے!

سالہا سال یہ بے آسرا جکڑے ہوئے ہاتھ
رات کے سخت و سیاہ سینے میں پیوست رہے

جس طرح تنکا سمندر سے ہو سر گرمِ ستیز
جس طرح تیتری کہسار پہ یلغار کرے

اور اب رات کے سنگین و سیہ سینے میں
اتنے گھاؤ ہیں کہ جس سمت نظر جاتی ہے

جابجا نور نے اک جال سا بن رکھا ہے
دور سے صبح کی دھڑکن کی صدا آتی ہے

تیرا سرمایہ، تیری آس یہی ہاتھ تو ہیں
اور کچھ بھی تو نہیں پاس یہی ہاتھ تو ہیں

تجھ کو منظور نہیں غلبہء ظلمت لیکن
تجھ کو منظور ہے یہ ہاتھ قلم ہو جائیں

اور مشرق کی کمیں گہ میں دھڑکتا ہوں دن
رات کی آہنی میت کے تلے دب جائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).