گجرات پولیس کا 13 دسمبر کو گرفتار کردہ نوجوان غائب کیوں؟


علی عرفان ولد عاشق علی 13 دسمبر 2018 کو لاپتہ ہوا تھا۔
اس نوجوان اور اس کے گھر والوں کے ساتھ جو ظلم ہوا وہ ایک طرف، لیکن میڈیا میں مکمل خاموشی، تو دوسری جانب پولیس اب تک اس نوجوان کا سراغ تک نہیں لگا پائی۔

سوال یہ ہے کہ تبدیلی کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ میڈیا ہائپ ہو تو قانون حرکت میں آتا ہے اور انصاف کو پر لگ جاتے ہیں، عرفان کے والدین اور پنڈ چوہدووال کے باسی ہر دوسرے روز ڈی پی او گجرات سید علی محسن کاظمی کے آفس کے باہر احتجاج اور رو رو کر آتے ہیں، ہائی کورٹ تک کا دروازہ کھٹکھٹا آئے، لیکن ظلم خدا کا کوئی افسر کوئی میڈیا پرسن ٹس سے مس نہیں ہو رہا، یہ ہے تبدیلی؟

جرائم ہو یا کوئی بھی معاشرتی مسائل، پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ٹی وی پروگرام ”سر عام“ جو محترم اقرار الحسن کی محنت اور کاوش سے اب پورے پاکستان میں ایک تحریک بن چکی ہے اس سلسلے میں میں نے گجرات میں تحریک ”سرعام“ کے سرکردہ سے بھی روابط کیے، ان کی خدمت میں پوری کہانی رکھی، لواحقین کے احتجاج کی ویڈیوز واٹساپ کیں، ہم سب کو بہت مان تھا کہ یہ تنظیم اس غریب نوجوان کے کیس کو ضرور اٹھائے گی، لیکن ہمیں ان کے رویے نے بھی بہت مایوس کیا۔

عرفان کے لئے آواز اس طرح نہیں اٹھی کیونکہ وہ بے ضرر غریب کی اولاد تھا۔ یہاں آواز اس کے لئے اٹھائی جاتی ہے جس کا کچھ نہ کچھ کہیں نہ کہیں اسٹیک جڑا ہو، کبھی مذہب کا تو کبھی مسلک کا، کبھی سیاسی تو کبھی لسانی کہیں پر کاروباری تو کہیں پر ذاتی۔
باقی رعایا کا خون شاید ریاست پر صدقہ ہے۔ !

ڈی پی او صاحب سے گزارش ہے کہ کیا عرفان کے والدین کا اتنا حق نہیں بنتا کہ وہ جان سکیں کہ ان کے بچے نے ایسا کیا جرم کیا کہ پولیس کی حراست میں غائب کر دیا گیا۔

محترم ڈی پی او صاحب ”بچے کے والدین انتہائی غریب لوگ ہیں، ایک گونگا مزدور باپ اور چار دیواری میں محصور بے کس ماں کی چیخیں نہ تو آپ اور نہ مقامی قیادت کو سنائی دے رہی ہیں نہ تو اپنے حلقے کے ایم این اے، ایم پی اے، اور نہ کسی مصالحتی کمیٹیوں کے ممبروں کو، کسی کو بھی چوہدووال جاکر والدین سے ملنے کی جسارت ہوئی، نہ صوبائی حکومت تک پیغام پہنچ پایا اور نہ تو میڈیا پر کوئی چیخا، نہ ہی سوشل میڈیا پر آواز اٹھی،

آخر ایسا کیوں ہے؟
کوئی تو ان سے ہمدردی کرو،
کوئی تو ان کے آنسو پونچھو،
کوئی توعرفان کے باپ کی فریاد سنو،

احتجاج میں بیچاری ماں رو رو کر پولیس پر الزامات لگا رہی ہے، لیکن اس کو کیا پتہ کہ پیٹی بھائی اپنے پیٹی بھائیوں پر ہاتھ نہیں ڈالتے، جس پولیس جس ایس ایچ او پر لواحقین الزامات لگا رہے ہیں آج ڈی پی او صاحب نے اس کی تعریف کے پل باندھے ہیں، ایسے میں ان غریبوں کو کون انصاف دے گا، جب قوم کے محا فظ ہی قاتل بن جائیں اور غنڈاگردی شروع کر دیں تو عوام انصاف اور تحفظ کے لیے کس کے پاس جائے۔

آج ہمارے وطن عزیز میں ہر شریف بندہ پولیس سے ڈرتا ہے۔ کیوں کہ پولیس طاقت کے نشے میں اپنے فرائض تک بھول گئی ہے اور پولیس کی ذمہ داری کسی بھی معاشرے میں امن وامان قائم رکھنا ہے۔ معاشرے کے مجبورطبقات کی مدد کرنا ہے، پولیس درحقیقت ریاست کی طرف سے ایک ایسے کام پر مامور ہے جس طرح اللہ تبارک و تعالی فرشتوں کو اپنی مخلوق کی مدد کے لیے بھیجتا ہے لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں پولیس نام کی فورس فرشتوں جیسا نہیں بلکہ ظالموں جیسا سلوک کررہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).