عمران خان اور شوکت خانم ہسپتال


\"usman

عمران خان کے لئے شوکت خانم ٹرسٹ کتنا اہم ہے، اس کا اندازہ آج مجھے اس وقت ہوا، جب وہ کراچی آئے۔ شوکت خانم ٹرسٹ کے افطار ڈنر میں کراچی والوں نے انہیں 12 کروڑ روپے کا چندہ دیا، اس چندے کی یقین دہانی کے ساتھ وہ عبدالستار ایدھی سے عیادت کے لئے ملے تو کہا کہ ایدھی وہ شخص ہیں جنہوں نے شوکت خانم ٹرسٹ کو بالکل ابتدا میں چندہ دیا تھا اور پھر خان صاحب امجد صابری کے گھر تعزیت کے لئے گئے تو کہا کہ امجد صابری وہ شخص ہیں جو شوکت خانم ٹرسٹ کی ہر چندہ مہم میں خود آجاتے اور آج بھی جو 12 کروڑ روپے جمع ہوئے ہیں، وہ امجد صابری کی قوالی لگا کر جمع کئے ہیں۔

شوکت خانم کی چندہ مہم میں تحریک انصاف کی سیاسی قیادت بھی موجود تھی، اب اگر اسپتال پر کچھ ناعاقبت اندیش تنقید کرتے ہیں تو اس میں کسی حد تک قصور خان صاحب کا بھی ہے جو چندہ مہم میں سیاسی لوگوں کو ساتھ رکھ کر سیاسی باتیں بھی کرتے ہیں اور یہ وہ سیاسی لوگ ہیں جو تحریک انصاف بننے سے پہلے شوکت خانم کا چندہ جمع کرتے تھے یعنی سیاست ان کی بنیادی یا ترجیحی ذمہ داری نہیں ہے۔

یہاں کراچی والوں کی دریادلی کی تعریف بھی ناگزیر ہے کہ اس شہر کے باسی بلاشبہ بڑا دل رکھتے ہیں، ایدھی صاحب جھولی پھیلا کر گھنٹوں میں کروڑوں روپے جمع کرلیتے ہیں، یہاں تو رمضان میں کمائی کے لئے آنے والے بھکاری بھی اربوں روپے سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔

بہرحال، وابستگی کا یہ عالم ہے کہ خیبرپختونخوا میں حکومت ہونے کے باوجود خان صاحب نے کینسر کا کوئی سرکاری اسپتال نہیں بنوایا بلکہ شوکت خانم ٹرسٹ کا حکومت میں آنے سے پہلے کا طے شدہ اسپتال بنوایا اور حکومت میں آنے کے بعد کراچی میں بھی اس مقصد کے لئے پاک فوج سے زمین لے لی۔

عمران خان اگر جامعہ حقانیہ کو 30 کروڑ روپے سرکاری خزانے سے دے سکتے ہیں تو سرکاری کینسر اسپتال بھی بنواسکتے ہیں، انہیں غور کرنا ہوگا۔ گو سیاست دان کا بنیادی کام صحت اور تعلیم سے وابستہ سرگرمیاں ہرگز نہیں ہیں مگر ملک کے تمام بااثر سیاسی گھرانے ان کاموں میں پیش پیش رہے ہیں، اتفاق فاؤنڈیشن کے تحت درجنوں شفاخانے ہیں، ایم کیوایم کے تحت کئی بڑے اسپتال ہیں، بھٹو خاندان نے عالمی معیار کی یونی ورسٹی بنائی مگر کوئی ان بنیادوں پر اپنی پذیرائی نہیں چاہتا بلکہ ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔

اور شوکت خانم ٹرسٹ بھی مکمل فلاحی ادارہ نہیں ہے بلکہ صرف ناداروں کا مفت علاج کیا جاتا ہے، یہ سہولت تو ملک میں سب سے مہنگے آغا خان اسپتال میں بھی ہے تاہم شوکت خانم ٹرسٹ کو انفرادیت ہے کہ یہ لاہور میں موجود سرکاری ہسپتال انمول کے علاوہ کینسر سے نجات کا ملک میں واحد اور سب سے بڑا اسپتال ہے۔

ابھی کراچی میں جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا سرکاری ٹراما سینٹر بنا، گمبٹ میں پاکستان کا پہلا جگر کی پیوند کاری کا سرکاری مرکز بنا، کراچی میں ریپ سے متاثرہ خواتین کی بحالی کا پاکستان میں پہلاسرکاری ادارہ بنا اور ڈاکٹر ادیب رضوی کا سوٹ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کا ایک بڑا سرکاری کارنامہ ہے مگر کوئی ان اداروں کو اپنے کھاتے تک میں نہیں ڈالتا اور ان اداروں سے عوام فائدہ اٹھارہے ہیں۔

خان صاحب کی ایک مضبوط سیاسی حیثیت ہے، ان کو ایک ٹرسٹ کے فروغ اور ترقی کی فکر سے باہر آکر ملک کے لئے سوچنا ہوگا جو کینسرزدہ ہوچکا ہے، ایک سیاست دان کی ترجیحات فلاحی سرگرمیاں نہیں ہوسکتیں، یہ کام سیاست دان کا نہیں ہے، سیاست دان کا سب سے بڑا کام ہے کہ وہ ملک کو صحیح ڈگر پر لے کر آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments