وفاق پاکستان کو ریجنلائزیشن کی ضرورت ہے


ریجنل ازم (علاقائیت) سیاسی نظریہ ہے۔ جس کی بنیاد علاقائی طور پر سیاسی، سماجی اور معاشی ترقی کو توجہ کا مرکز بنایا جاتا ہے۔ ریجن ایک یا زیادہ ہو سکتے ہیں۔ کئیء ریجن کی ایسوسی ایشن، سیاسی جماعت اور تنظیم بنائی جا سکتی ہے۔ علاوہ جغرافیائی شناخت کے ریجنل لسانی اکائیاں، مذہبی اقلیتی گروپس، قومیتیں اور ثقافت ریجنل ازم کی ڈومین میں آتیں ہیں۔ بنیادی فلسفہ وفاقیت کی ریجنلائزیشن کرنا ہے۔ اقتدار کی مرکزیت میں بتدریج کمی کرکے ریجن کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دینا ہے۔

ریجنل ازم میں مرکزی ریاست کی بنیاد ریجن پر مبنی ہوتی ہے، جس طرح یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ ہے۔ پچاس ریجن کا ایک وفاق ہے۔ علاقائیت کی سیاست سے وفاقیت کو تقویت ملتی ہے۔ آج کا عہد تقاضا کرتا ہے کہ علاقائی خطوں کی بات کی جائے۔ ریجنل ازم سے ریاست مضبوط اور وفاق طاقت ور ہوتا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت نے پنجاب سمیت دیگر علاقوں میں شورش کا خاتمہ ریجنل ازم کی سیاست کے ذریعے کیا ہے۔ آج آپ کو بھارتی پنجاب میں خالصتان کی وہ آواز سنائی نہیں دیتی ہے جو کچھ عرصہ پہلے سنائی دے رہی تھی۔ بھارت نے ریجنل ازم کو فروغ دے کر وفاق کو بچایا ہی نہیں بلکہ مضبوط کرلیا ہے۔ بھارتی پنجاب میں اب خالصتان تحریک تمام تر کوششوں کے باوجود آگے نہیں بڑھ رہی ہے اور نہ کوئی آئندہ آثار نظر آتے ہیں۔

ریجنل علاقے وفاق کی عمارت میں بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وفاق پسند اس امر کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ وفاق کی عمارت کی بنیادیں کمزور ہوں تو وفاق کمزور ہوگا۔ عمار ت اپنی بنیادوں پر ہی مضبوط ہوتی ہے۔ دوسری اہم ترین بات کہ جب ریجنل سطح پر نئے صوبوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ یہ نئی صورتحال ہے۔ آئندہ سیاست نئے صوبوں پر ہوگی۔ نئے صوبوں کی تشکیل سے انکار ممکن نہیں ہو سکے گا۔ ریاست اور حکومت کو حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

خدا ناخواستہ اس امر سے پہلوتہی برتی گئی تو پھر حالات ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ پچھتاوئے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔ اس وقت سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا سمیت بلوچستان میں نئے صوبوں کی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ پنجاب میں تحریک صوبہ پوٹھوہار اور سرائیکستان، جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبے کی مانگ دن بدن زور پکڑ رہی ہے۔ جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبہ کے لئے شور ایوانوں میں سنائی دے رہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک صوبہ ہزارہ تناور درخت بن چکی ہے۔

سندھ سے جنوبی سندھ صوبہ کی بازگشت ہے۔ بلوچستان سے بھی پشتون صوبے کے آثار ابھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ حقوق کا مسئلہ بلوچستان میں پرانا ہے۔ آزاد بلوچستان کی بات بھی کی جارہی ہے۔ شورش دبانے کے لئے بندوق کا استعمال شورش کو تقویت دیتا ہے۔ خدا کے لئے کمر توڑنے کا فارمولا ہر جگہ نہ آزما یا جائے۔ کچھ جگہوں پر کمر جوڑنے سے مسئلہ حل ہوتا ہے۔ وفاق پاکستان میں ریجنل بنیادوں پر کمر جوڑنے کی ضرورت ہے۔ ریاست، ریاستی ادارے، حکومت اور وفاق پسند طبقات اگر چاہتے ہیں کہ وفاق مضبوط اور توانا رہے تو پھرپاکستان میں بسنے والی قومیتوں، لسانی اکائیوں سمیت صوبائی اور ریجنل اکائیوں کو ان کی مانگ کے مطابق بنیادی انسانی حقوق سمیت سیاسی، سماجی اور آئینی حقوق دینا ہوں گے۔

قومیتوں کو دبانے سے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وفاق پاکستان ابھی ریجن کو کچھ دینے سے قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ستر سال کی فاقہ مستی کے بعد ریجن انگڑائی لے رہے ہیں۔ پسماندگی، سیاسی و سماجی اور معاشی ناہمواریاں نئے صوبوں کی آواز کا سبب بن رہی ہیں۔ وفاق کا کھوکھلا پن پچھلی حکومت سے زیادہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ نیا پاکستان کا خواب چکنا چور ہو چکا ہے۔ وفاق پاکستان، وفاقی حکومت اور وفاقی اداروں کا استحکام اسی صورت میں ممکن ہوسکے گا۔

جب ریجن کی جانب قوت اقتدار منتقل کی جائے گی۔ وفاق پاکستان اب مزید نئے تجربات کی سکت نہیں رکھتا ہے۔ اس سنگینی کو ریاست کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی ریاستی ادارے اور وفاقی سیاسی جماعتیں ریجنل کی سیاسی پارٹیوں کو سپورٹ کریں، ریجنل پارٹیاں وفاق میں حصہ نہیں مانگتی ہیں۔ ریجنل لیڈرشپ وزارت عظمیٰ کے امیداور نہیں ہیں۔ ریجنلسٹس صرف اپنے اپنے ریجن کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور معاشی ترقی چاہتے ہیں۔ ریجنلسٹ وفاق سے صرف داخلی خود مختاری چاہتے ہیں تاکہ ریجن کے وسائل کو ریجن میں خرچ کرکے مقامی افراد کو بنیادی انسانی حقوق اور ضروریات فراہم کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).