اسلامی جمہوری تماشہ گاہ


ہم ایک تماشہ گاہ میں رہتے ہیں اوراس تماشہ گاہ کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تماشائی ہونے کے باوجود تماشائی نہیں ہیں۔ تماشائی بھی دراصل تماشہ دکھانے والے خود ہیں۔ ہمیں گمان ہے کہ ہم یہاں تماشہ دیکھنے کے لیے آئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس تماشہ گاہ میں تماشہ بننے کے لیے دھکیلا گیا۔ تماشہ بھی ایسا کہ جس میں ہرمداری اپنے اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کر رہا ہے۔ کوئی ہاتھ چھوڑ کر سائیکل چلاتا ہے۔  تو کوئی بندوق چلائے بغیر گولی مارنے کے ہنر سے واقف ہے۔ شاہ دولا کے بہت سے چوہوں نے اپنے سروں پر دستاریں سجا رکھی ہیں۔ کچھ غلام اپنی حکمرانی کاتماشہ دکھا رہے ہیں اور حکمران خادموں کا روپ دھارکر رعایا کا تماشہ دیکھنے میں مصروف ہیں۔ تماشہ گاہ میں ہمیں سوال کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ بعض کرتب دیکھ کر بہت سے سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں لیکن یہاں سوال کرنا منع ہے۔ سوال بھی مداری خود کرتے ہیں اورپھر اس کا کوئی مناسب سا جواب بھی ہم تک پہنچا دیتے ہیں۔ سوال غلط ہو تو ہم اسے غلط نہیں کہہ سکتے اور جواب غلط ہو تو ہماری کیا مجال کہ اس پر کوئی اعتراض کریں۔ سو ہم مطمئن ہو کرتماشہ گاہ میں چپ چاپ تماشہ بنتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ تماشے کے دوران مداری جب ہماری حالت زار پر تالیاں بجاتے ہیں تو ہم بھی نعرہ ہائے تحسین بلند کرتے ہیں اورمداریوں کے ہنر کو داد دیتے ہیں۔

تماشے کے دوران بعض اوقات ہم جیسوں کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے کہ تماشے کو خوبصورت اور دلچسپ بنانے کے لیے بعض اوقات قتل کا سامان بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ ہم خاموشی سے قتل ہوتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے قتل پر صدائے احتجاج بھی تو بلند نہیں کرتے۔ تماشہ گاہ میں قتل بھی 100 طرح کے ہیں۔ انسانوں کا قتل توخیر اب قتل میں شمار ہی نہیں ہوتا۔ جس اسلامی جمہوری تماشہ گاہ میں اقدار، روایات اور عقائد بھی قتل کردیئے جائیں وہاں انسانوں کے قتل کی بھلا کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ تماشہ گاہ میں گناہ و ثواب کی تمیز کچھ ایسے ختم ہوئی کہ رحمتیں زحمتوں میں تبدیل ہو گئیں، مفتیوں کی پارسائی سوالیہ نشان بنی اور وہ جو خود کو عالم کہتے تھے گالم گلوچ پر اتر آئے۔ رحمتوں کا مہینہ اس تماشا گاہ میں صرف ان لوگوں کے لیے باعث رحمت قرار پایا جو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور لوٹ مار و ناجائز منافع خوری جن کا مسلک ہے۔ ایسے لوگوں نے ماہ مقدس کے آغاز سے قبل ہی چھریاں تیز کیں۔ منہ مانگے دام وصول کیے اور اپنی تجوریاں بھر لیں۔ ماہ مقدس کا پہلا عشرہ ایسے لوگوں کے لیے بے شمار ”رحمتیں“ لایا۔ تماشائی اور تماشہ بننے والے حیرت سے انہیں دیکھتے رہے۔ دوسرے عشرے میں ان لوگوں نے اسی لوٹ مار کے پیسے سے صدقہ و خیرات کیا۔ خیراتی اداروں کی مدد کی۔ غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواﺅں میں زکوة تقسیم کی۔ مفلوک الحال لوگ جوق درجوق ان کے دروازے پر آئے ۔ اپنی ہی لٹی ہوئی رقم میں سے اپنے حصے کی خیرات لی اور ظالموں کے لیے درازی عمرکی دعائیں کرتے ہوئے رخصت ہو گئے۔ یوں دوسرا عشرہ ایسے لوگوں کے لیے ”مغفرت “ کا عشرہ بھی بن گیا۔ پیٹ کا دوزخ بھرنے والے ان لوگوں کو معلوم تھا کہ مغفرت کے باوجود ان کی دوزخ سے نجات نہیں ہوگی۔ سو دوزخ سے نجات کے لیے انہوں نے اپنے بچوں اور بھائیوں کو اپنی دکانوں پر بٹھایا اور خود جا کر اعتکاف میں بیٹھ گئے۔ ان کے عزیزواقارب اوراولادیں عید تک عید شاپنگ کرنے والوں سے عید بٹوریں گی۔ پھر عید کا چاند نظرآئے گا۔ شیطان آزاد ہو جائے گا اوریہ سب لوگ عید کی ”حقیقی“خوشی حاصل کریں گے۔ اسلامی جمہوری تماشہ گاہ کا یہی چلن ہم برسوں سے دیکھ رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں بھی دیکھتے رہیں گے۔ سوال کرنے کی ہمیں بھی اجازت نہیں اورہم یہ اجازت آپ کوبھی نہیں دینا چاہتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments