سماجی ذرائع ابلاغ، عقائد کا احترام اور تربیت کا اظہار


میں ایک کٹھن سفر پہ تھا۔ لاہور کا سورج جیسے سوا نیزے پہ ہو۔ داڑھ گیلی کرنے کا موقع میسر نہ ہونے کی وجہ سے حلق خشک کا خشک ہی رہا۔ کرنے کو تو حلق تر ہو سکتا تھا مگر یہ احساس دامن گیر رہا کہ اطراف میں جو ہجوم ہے، بیشتر ان میں سے روزے سے ہوں گے۔ اسے احترام رمضان کا احساس کہوں تو کچھ بڑی بات ہوگی، سو اسے ایک اور احساس کہہ لیتے ہیں کہ “لوگ کیا کہیں گے”۔ اس صورت حال سے گزرتے ہوئے کچھ قریبی دوست یاد آگئے جو محض ردعمل میں خدا بیزار ہوگئے۔ رد عمل کی ایک واضح علامت یہ ہے کہ وہ رمضان میں قصدا روزہ داروں کے سامنے کھاتے ہیں تاکہ دیکھتی آنکھ کو اکسایا جا سکے۔

عین اسی لمحے دوبئی میں مقیم دوست عظمت نواز سے گفتگو شروع ہوگئی۔ بتانے لگے کہ دفتر میں ایک غیر مسلم دوست ہیں جو ہمارے ساتھ  روزہ رکھ رہے ہیں، آواز دے کر پوچھ رہا ہے مسلمانو! کتنے روزے باقی رہ گئے۔ میں نے پوچھا یہ غیر مسلم روزے رکھ کر کس جرم کی سزا کاٹ رہا ہے؟۔ عظمت نے بتایا

“یہ ہمارا ہم جولی ہے۔ ہم ساتھ کھاتے ہیں اورساتھ ہی سگریٹ پھونکنے باہر جاتے ہیں۔ اب روزے شروع ہوئے تو کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا۔ سگریٹ سے بھی احتراز۔ پوچھنے پر بتایا کہ روزے سے ہوں۔ وجہ دریافت کی تو کہنے لگا کہ یہ صرف آپ لوگوں کے احترام میں رکھ رہا ہوں۔ مجھے اچھا نہیں لگ رہا کہ دوست روزے سے ہوں میں کچھ کھاوں یا پھر سگریٹ پھونکوں”

میں نہیں جانتا یہ غیر مسلم کون ہے، مگر میرے دل میں اس کے لیے احترام کے بے پناہ جذبات پیدا ہوگئے۔ یکایک مجھے وہ تپتی دوپہر یاد آ گئی جب ہم اور کچھ رفقائے کار کچھ پیشہ ورانہ امور نمٹانے کے لیے اسی لاھور کی خاک چھان رہے تھے۔ فرانس کے دو مسیحی نوجوان اور ساوتھ افریقہ کی ایک مسیحی سیاہ فام خاتون ہمراہ تھیں۔ مقامی رفقائے کار میں سے تین روزے سے تھے۔ ہم صبح نو بجے پابہ رکاب ہوئے اور دن دو بجے یہ احساس ہوا کہ ہمارے ساتھ کے غیر مسلم ہم کاروں نے ابھی تک ایک گھونٹ پانی تک حلق سے نہیں اتارا ہے۔ ہم ریستوران ڈھونڈنے لگے، بمشکل تمام ایک ریستوران کے دروازے پہ پہنچے تو مسیحی خاتون نے ماجرا بھانپتے ہوئے کھانا کھانے سے صاف انکار کردیا۔ ساتھ ہی باقی کے دو نوجوانوں نے بھی نہ کھانے کی پختہ ضد باندھ لی۔ اصرار و انکار کی اس تکرار میں غالب وہی رہے۔ ہم واپس چل دیئے۔ شام کے چار بج گئے تو ایک فرانسیسی ہم کار کی ہمت جواب دے گئی، مگر ایک مقام پہ ہمیں احساس تک ہونے نہیں دیا اور ایک تنگ سی گلی میں جا کر کچھ پیٹ پوجا کرکے آگیا۔ ہم افطار پہ کہیں مدعو تھے، غیر مسلم ہم کار ساتھ چلے۔ عین اس وقت کہ جب مغرب کی اذان ہوئی ان غیر مسلم دوستوں نے ہمارے ساتھ ہی کھجور کھائی اور کھانے کا آغاز کیا۔ چائے کا دور چلا تو ہمارے ایک دوست نے افریقی خاتون سے کہا

“آپ نے بلاوجہ خود کو بھوکا پیاسا رکھا، اگر کچھ کھا لیتے تو ہمارے لیے کوئی حرج کی بات نہ تھی”

خاتون مسکرائیں، چائے کی ایک چسکی بھرتے ہوئے کہا

“میں کھانا کھا سکتی تھی، مگر زیادہ خوشی مجھے اس بات سے ہوئی کہ میں نے ایک مذھب کا احترام کیا۔ کھانے سے زیادہ اہم میری خوشی تھی، جو مجھے مل گئی”

یاد آتا ہے کہ اسی ملک میں رواداری اور احترام کی کیسی روایت تھی، جو اب نہیں رہی۔ کرچی کے جس محلے میں عمر بسر ہوئی وہ عثمانیہ سوسائٹی ہے۔ عثمانیہ کا ملحقہ علاقہ رضویہ سوسائٹی جو مکمل شیعہ آبادی ہے۔ ہمارا گھرعثمانیہ اور رضویہ کے سنگم پہ واقع تھا۔ وہ دن زندگی کے حسین ترین دن ٹھہرے جب محرم الحرام میں سنی نوجوان امام بارگاہ کربلا پہ سیکورٹی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ سنی ہی سبیلیں لگالیتے اور نیاز بانٹتے تھے۔ سنی ہی عاشورہ کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لاتے اور عاشورہ کی رات حلیم کی دیگیں چڑھاتے۔ اہلیان کراچی کو یاد ہوگا کہ ایم اے جناح روڈ پر عزاداروں کا جلوس جب برامد ہوتا تو اطراف کی عمارتوں سے سنی خواتین ضرورت کی اشیا بہم پہنچاتیں۔ امام باڑوں میں شیعہ حضرات پورے اطمینان سے اپنے مذہبی فرائض انجام دیتے اور باہر کھڑے سنی محافظوں پر پورا اعتماد رکھتے۔ اب حالات یہ ہوگئے کہ ہزار اعتماد کے باوجود وہ سنیوں کو اسکارٹ میں شامل کرنے کو تیار نہیں ہیں، اور سنی بھی اب یہ بلا اپنے سر لینے پہ آمادہ نہیں ہیں۔ سنیوں نے سبیلیں لگانا ترک کردیں اور یہاں تک کہ اہل تشیع نے بھی سبیلیں محدود کر دیں۔ کہیں عام سڑک پہ سبیل لگا لیں تو شام ہونے سے پہلے وہ قبول ہو چکی ہوتی ہیں۔ محبت کے جن شب وروز کو اب دل ڈھونڈتا ہے، وہ صرف ہمارے محلے کا خاصہ نہیں تھا۔ پاکستان بھر کی اور خاص طور سے لاھور کی یہ روایت ہوا کرتی تھی۔ کیا اب لاہور میں یہ روایت زندہ ہے؟ میرا نہیں خیال۔

اگر نفرت اور فاصلوں کے اسباب پر سوال اٹھاوں تو خدا جانے آپ کا جواب کیا ہوگا، مگر مجھے ایسے میں برصغیر کے سب سے بڑے ناخواندہ عالم جناب عبدالستار ایدھی کا ایک جملہ یاد آتا ہے

“لوگ تعلیم یافتہ ہوتے جا رہے ہیں، مگر انسانیت ختم ہوتی جا رہی ہے”

 انہی سطور میں کہیں لکھا تھا کہ انسان بننے سے پہلے مسلمان بن جانے کا جرم ہم سے سرزد ہوا ہے۔ ہم کس قدر بدلحاظ ہو گئے، سماجی ذرائع ابلاغ کی ہر تیسری دیوار اس کی گواہ ہے۔ برادرم آصف محمود نے انبیا کی اہانت پہ سوال اٹھایا تو عرض کیا کہ انبیا تو بہت آگے کی بات ہوگئی، انبیا کو رہنے دیجیئے کہ وہ تو مذاہب کا پروٹوکول ہیں، اس سے کوئی کیسے چھیڑ چھاڑ کر سکتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اخلاقیات میں کہیں سیاسی اکابرین کی توہین کی بھی کہیں گنجائش ہے؟ سماج میں جو لوگ ایک دوسرے کے مرحوم سیاسی اکابرین کے کفن نوچ رہے ہیں کیا ان سے ہمیں توقع رکھنی چاہیئے کہ وہ انبیا کی اہانت کے معاملے میں سنجیدہ طور پہ حساس ہوں گے؟ ایک مسیحی کی رواداری یا غیرت ایمانی اس طور نہیں ناپی جائے گی کہ وہ حضرت مسیح کو کتنی عزت دیتا ہے، اس کی اخلاقیات کا پیمانہ یہ ہوگا کہ وہ رسالت مآب کو کتنی عزت دیتا ہے۔ ہمیں اس بات کا دعوی ہے کہ ہم تمام انبیا کو برحق مانتے ہیں، یہ درست ہے مگر عام رجحان میں ان کے مقام و احترام کا درجہ تو ہم نے اپنے اصولوں پہ طے کیا ہوا ہے۔ یقین نہ آئے تو دیکھ لیجیئے کہ پختونخواہ کے نصاب میں ہم نے مسیحیت اور ہندو مت کا تعارف کن الفاظ میں کیا ہے۔ جن آسمانی کتب پہ دیگر مذاہب کے لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کا تعارف ہم اپنے نصاب میں کن الفاظ میں کرواتے ہیں؟ کبھی پڑھیئے گا۔ یہ الفاظ کم سے کم درجے میں بھی مذاہب کی توہین اور پیروکاروں کی دل آزادی کے سوا کچھ نہیں۔ آپ کا کہا ہوا جملہ دشنام تھا کہ کچھ اور، اس کا فیصلہ آپ نہیں میں کروں گا۔ دشنام اور اہانت کی سنگینی کا فیصلہ دوسرے مذاہب کے لوگ نہیں کرسکتے، یہ خود مذہب کا پیروکار طے کرے گا کہ وہ کس بات کو توہین سمجھتا ہے اور کس بات کو دشنام۔ مذھب اور انبیا کی اہانت کے معاملے میں ہمارے ہاں جو طبقہ بہت زیادہ حساس نظر آتا ہے ان کا رویہ کبھی آپ نے محرم الحرام میں دیکھا؟ ایک طبقہ منبر و محراب سے حضرت ابو بکر صدیق حضرت عمر اور حضرت عثمان کی قبریں ادھیڑتا ہے، دوسرا طبقہ اسی محرم میں ذوالجناح، عزاداری اور شام غریباں جیسی مذہبی رسومات وروایات کا استہزا کرتا ہے۔ دونوں ہی طرف سے عقائد کی تذلیل کر نے والے سنجیدہ علمائے کرام ہوتے ہیں۔ میں کیسے مان لوں کہ عقائد کی اس درجے میں تذلیل کرنے والی ان ہستیوں کے لیے انبیا کی حرمت واقعی کوئی بڑی بات ہوتی ہوگی۔ اسلام آباد کے مقامی ہوٹل کی ایک تقریب میں ایک تلخ مزاج لبرل خاتون سے ملاقات ہوئی۔ ایک جملہ ان کے منہ سے نکلا  تو عرض کیا

“اگرآپ عقائد کا احترام کرنا نہیں سیکھ پائیں، تولبرل ازم پہ اصرار آپ کو زیب نہیں دیتا۔ ژاں پال  سارتر اور برٹرینڈ رسل کو اگرآج مذہبی طبقہ بھی احترام دینے پہ مجبور ہے تو اس کی وجوہات پہ کبھی غور کیجیئے گا”

پوچھا !

کیا سماجی ذرائع ابلاغ کے لیے سخت قوانین کی ضرورت ہے؟

عرض کیا۔!

سماجی ذرائع ابلاغ ہماری تربیت کا آئینہ دار ہے۔ درس گاہوں میں اور اقامت گاہوں میں جس نے اساتذہ سے اور بزرگوں سے جو سیکھا، اس کا لازمی اظہار اس کی عام زندگی میں ہو گا۔ سماجی ذرائع ابلاغ بھی اس اظہار کا ایک مقام ہے۔ قانون کے نہیں، یہ اخلاقیات کے معاملات ہیں۔ جو شخص انتہائی درجے میں مذہب پسند ہوکر بھی حریف فرقوں کی رسوم و روایات اور اکابر کا احترام نہیں کرسکتا، اس سے اچھے کی امید رکھیئے تو اپنی ذمہ داری پہ رکھیئے۔ جو شخص زندہ سیاسی اکابر تک کی توہین گوارا نہ کرتا ہو، اس کی تربیت کی قدر کیجیئے کہ انبیا کی توہین وہ کسی طور گوارا نہیں کرے گا۔ کبھی ایک لفظ استعمال ہوا کرتا تھا تعلیم وتربیت کا۔ شاید تعلیم رہ گئی، تربیت رخصت ہو گئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments