استاد بڑے غلام علی خان اور پاکستان
سنتے آئے ہیں کہ بڑے لوگوں کی عنائتیں بھی بڑی ہوا کرتی ہیں اور عداوتیں بھی۔ پچاس کی دہائی تھی، استاد بڑے غلام علی خان نے کچھ گا کر سنایا تو ذوالفقار علی بخاری نے غلطی نکالی، خان صاحب گویا ہوئے کہ بخاری صاحب آپ ٹھہرے سید اور اوپر سے پٹھان، بھلا آپ کو کیا علم کہ سُر سنگیت کی کیا رام کہانی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ بخاری صاحب ویسے تو ایک قد آور شخصیت تھے اور پاکستان کے کئی نامور فنکاروں کو متعارف کروانے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے، لیکن موصوف رتی برابر ظرف کے بھی حامل نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ استاد بڑے غلام علی خان کا جواب زیڈ اے بخاری صاحب کو سخت ناگوار گزرا۔
(زیڈ ۔اے بخاری، پطرس بخاری کے چھوٹے بھائی تھے اور اس وقت ریڈیو پاکستان کے ڈی جی تھے)
معاملہ ٹھنڈا پڑا تو اگلے روز استاد بڑے غلام علی خان نے اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بخاری صاحب سے ملاقات کا فیصلہ کیا اور ان کے دفتر جا پہنچے، بخاری صاحب کو علم ہوا تو ملاز م سے کہا کہ “بیٹھا رہنے دو اس مرا ثی کو باہر”۔ کچھ دیر بعد اس وقت کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر پروگرامنگ حمید نسیم صاحب وہاں آن پہنچے، استاد کو باہر انتظار کرتے دیکھا تو اندر چلے گئے اور بخاری صاحب سے گلہ کیا کہ یہ کیا؟ آپ نے برصغیر پاک و ہند کے عظیم فنکار کو باہر بٹھا رکھا ہے، جواباً بخاری صاحب نے ایسا جملہ ادا کیا جسے چاہ کر بھی یہاں لکھنا ممکن نہیں۔ بیسویں صدی کے تان سین کی شان میں اس قدر گستاخی حمید نسیم صاحب سے برداشت نہ ہوئی اور وہ غصے سے باہر نکل آئے۔ فن شناس لوگ بتاتے ہیں کہ بخاری صاحب کے اس رویے نے استاد بڑے غلام علی خان کو شدید ذہنی صدمے سے دو چار کر دیا، فنکار بری طرح سے رسوا ہوا۔ لیکن ستم ظریفی کی حد دیکھیے کہ معاملہ اسی بات پر ہی ختم نہ ہوا بلکہ زیڈ اے بخاری صاحب نے ذاتی عناد کی بنیاد پر ریڈیو پاکستان پر خان صاحب کو نشر کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی۔
کہتے ہیں کہ اسی دور میں ایک روز لاہور پولیس نے استاد کو روک لیا، تلاشی لی، خان صاحب اپنا تعارف کروا رہے تھے کہ پولیس والے نے سر منڈل اور طبلے دیکھ کر کہا کہ” اچھا اچھا آپ مراثی ہیں” بس! استاد سے فن کی اس قدر توہین برداشت نہ ہوئی، ریڈیو پاکستان کے ڈی جی جو خود کو فن شناس جانتے تھے سے لے کر پولیس والے تک خان صاحب کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تواستاد نے ہندوستان جانے میں ہی عافیت جانی۔ اس وقت کے دہلی کے وزیر اعلیٰ خان صاحب کے قدر شناس تھے۔ انہوں نے خان صاحب کو بھارتی شہریت دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے خان صاحب کے لیے مالا بار کے پوش علاقے میں ایک بنگلہ بھی رہائش کے لیے پیش کیا اور پھر ہندوستان نے اسی ‘مراثی’ کی فنی خدمات کے اعتراف میں اسے پدما بھوشن اور سنگیت ناٹک اکیڈمی جیسے اعلٰی ایوارڈ ز سے بھی نوازا۔
نوشاد جی، مدن موہن، ایس ڈی برمن، پنڈت جواہر لعل نہرو، لال بہادر شاستری، راج کپور، دلیپ کمار، لتا جی، آشا جی، اور بر صغیر پاک و ہند کے سبھی نامور فنکار، گلوکار، موسیقار اور سیاستدان اُستاد کے مداح تھے۔ فیروز نظامی کے علاوہ رفیع جی استاد کے شاگرد ہوئے ہیں، ملکہ ترنم نور جہاں نے بھی کچھ عرصہ خان صاحب سے فیض پایا۔
گو کہ انسٹھ میں بخاری صاحب ریڈیو پاکستان سے رخصت ہو گئے، لیکن جنرل ایوب کے دور حکومت میں بھی آمرانہ حکم کے تحت خان صاحب اور دیگر بھارتی فنکاروں کی آواز نشر کرنے پر پابندی عائد رہی۔ خان صاحب ایسے روٹھے کہ پھر جیتے جی فقط ایک بار اپنے بھائی برکت علی سے ملنے کراچی آئے اور پھر کبھی دوبارہ پاکستان کا رخ نہ کیا۔
خان صاحب دو اپریل 1902 کو قصور میں پیدا ہوئے، آزادی کے وقت ہندوستان میں تھے، واپس پاکستان پلٹے لیکن حالات نے خان صاحب کو دوبارہ ہندوستان بھیج دیا۔ کہتے ہیں کہ سارنگی بجانا باامر مجبوری سیکھا، گو کہ پٹیالہ گھرانے کے چشم چراغ ہونے کے ناطے سر سنگیت سے سنگت بچپن ہی سے تھی، لیکن والد نے دوسری شادی کر لی اور یہ نظر انداز ہو گئے، روزی روٹی کمانے کے لیے خان صاحب نے عنائت بائی کے ساتھ سارنگی بجانا شروع کی، امرتسر میں عنائیت بائی گا رہی تھیں تو انہوں نے مشکل سر چھیڑ دیا، سارنگی کے تار سر کی لے کو نہ چھو پائے، خان صاحب نے وہیں سارنگی توڑ دی اور کہا کہ اب میں آپ کو گا کے دکھاوں گا اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا جو گایا امر کر دیا۔
موسیقی کے رسیا بخوبی جانتے ہیں کہ کلاسیکی موسیقی مشکل اور پیچ دار تانوں پر مشتمل ہوتی ہے، لیکن مشکل تانوں کو میٹھی آواز میں سہل بنانا صرف خان صاحب کا ہی خاصا تھا، تان ان کی پہچان بن گئی، مسلسل ریاض اور تان لگانے کے بعد گائیک کے سروں میں خشکی پیدا ہو جاتی ہے، لیکن خان صاحب کے ہاں صورتحال بالکل برعکس تھی، آواز کبھی ترش نہ ہوئی اور گلہ ہمیشہ تر رہا، گویا آواز میں دریا کی لہروں کی مانند روانی تھی، ٹھمری کو نئی جہت عطا کی، عموماً گائیک راگ کے زیر و بم کو فالو کرتا ہے لیکن ان کے ہاں تمام راگ انہی کے پیروکار تھے۔ بھیروں ، درباری ، ایمن اور جے جے ونتی بہت شوق سے گایا کرتے تھے۔
استاد نے کلاسیکی کو مٹھاس اور نرمی میں بدلا، جدت دی لیکن روایات کو بھی مزید پختہ کیا، کلاسیکی میں سر منڈل کے تاروں کو راگ کے ساتھ چھیڑنا جان جوکھوں کا کام ہے، لیکن یہ صرف استاد بڑے غلام علی ہی تھے جنہوں نے نا صرف سر منڈل کو کمال مہارت سے بجایا بلکہ اس میں مزید تاروں کا اضافہ کر کے اس کے سینے سے نئے سر بھی بکھیرے اور سر بھی ایسے کہ سر منڈل کو چھوتے تو سننے والوں کی آنکھیں رو دیتیں۔
استاد لوگ کہا کرتے ہیں کہ خان صاحب اونچے سر میں جاتے تو آواز رتی بھر بھی نہ کانپتی نہ پھٹتی، قدرت نے ایسی آواز عطا کی تھی کہ سر کے آغاز سے انجام تک دریا کی سی روانی برقرار رہتی جبھی تو آپ بیسیویں صدی کے تان سین کہلائے۔ مشکل سے مشکل تان ، پلٹ اور گمک میں بھی آواز اور ریاضت کے طفیل سر میٹھا رہتا گو کہ خیال گائیکی کے بادشاہ تھے لیکن ٹھمری کو بھی گا کر کمال کر دیا۔
سوچتا ہوں کہ بحثیت قوم ہم کس قدر بد بخت واقع ہوئے ہیں، کہ نہ حکمرانوں کو فرصت اور نہ عوام کو توفیق کہ وہ اپنی دھرتی کے ایسے لازوال فنکاروں کا ذکر خیر کر سکیں۔ بڑے غلام علی خان صاحب کے فن پر رائے درکار تھی، ملک کے ایک انتہائی نامور گلوکار کو فون کیا ، جواب میں مایہ ناز گائیک نے کہا، “ملنگ جی! قسمے خان صاحب نوں اج تک نیں سنیا”۔
المیہ یہ ہے کہ اب نہ تو استاد بڑے غلام علی خان جیسے فن کار باقی ہیں اور نہ ہی بد قسمتی سے فن کے قدر دان۔ قومیں اپنے کلچر، فن اور فنکار سے پہچانی جاتی ہیں، تاریخ ان کے ذکر کے بنا ادھوری قرار پاتی ہے، لیکن پاکستانی کلچر شاید اب الباکستانی ہوتا جا رہا ہے۔
- کمینے۔۔! - 27/11/2021
- استاد بڑے غلام علی خان اور پاکستان - 04/02/2021
- ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم - 26/06/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).