نام کی کہانی


یہ گھپلا بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے۔\"asif-farrukhi_1\"

اس وقت میرے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ وہ کون شخص تھا جو جیتے جی مر گیا اور وہ کون جو موت کے مرحلے سے گزر کر بھی زندہ ہے۔

یہ تو ظاہر ہے کہ وہ، وہ تھے۔ اپنی ذات میں ایک انجمن، ایک شخص میں رچی بسی تہذیب، زبان و ادب کا جیتا جاگتا مرقع۔ مگر میں، مَیں نہ بن سکا۔ میں ان کی تعزیت کیسے کروں، میں تو بس اپنے آپ سے اپنی تعزیت کرسکتا ہوں اور دعائے مغفرت اپنے لیے۔

میرے ابّو میرے سارے وجود میں اس طرح سرایت کرگئے تھے کہ ان کا نقش بول اٹھتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر کچھ ہے تو تہمتِ چند جو اپنے ذمّے دھر چلے۔ اگر اپنے آپ میں سے ان کے نام کو علیحدہ کر دیا جائے تو پھر گنّے کا پھوک رہ جاتا ہے اور چند ایک بُرائیاں جن کا میں مجموعہ بن گیا ہوں۔

یہ بات میں چُھپانا بھی چاہوں تو چُھپا نہیں سکتا۔ ابھی میں اندازہ نہیں لگا پایا ہوں کہ کتنے فی صد مر چکا ہوں اور کتنے فی صد زندہ رہ گیا۔

یہ خبر مجھے جاننے پہچاننے والوں میں بھی پھیل چکی ہے۔ ابھی چند دن پہلے لاہور سے ایک تعزیتی پیغام آیا۔ بہت محترم اسکالر اور استاد، جن کو دوست کہتے ہوئے مجھے فخر ہوتا ہے۔ وہ بات کرتی ہیں تو جیسے منھ سے پھول جھڑتے ہیں۔ انھوں نے لکھا، عزیزم اسلم فرّخی۔ ابھی اخبار کے ذریعے آصف فرّخی کے انتقال کی خبر ملی۔ بہت صدمہ ہوا۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔ ‘‘

یہ التباس کئی بار ہوا اور اس کے دل چسپ حوالے ہیں جن سے میری یادیں منّور ہیں۔ منیر نیازی کراچی آتے تھے تو مجھ سے اور میرے والد سے ملنے آتے، \"aslamدیر تک باتیں کرتے، بہت خوش ہوتے۔ ایک بار کراچی آئے تو شاید میرا نام فوراً ذہن میں نہیں آیا۔ فاطمہ حسن سے کہنے لگے، بھئی کہاں ہیں وہ ایک جیسے باپ بیٹے۔ اس کے بعد انہوں نے کئی مرتبہ اسی نام سے یاد کیا۔

ہاجرہ مسرور کے افسانوں کا کلیّات ایک جلد میں شائع ہوا تو انہوں نے کمال مہربانی سے ایک نسخہ مجھے عنایت کیا۔ دستخط کرتے کرتے رُک گئیں لکھا: اسلم فرّخی، آصف فرّخی یعنی باپ، بیٹا اور۔۔۔۔

ان کی مسکراہٹ نے جملہ پورا کرنے کی ضرورت نہیں رہنے دی۔

اصل میں اچھا بھلا میرا نام تو آصف اسلم تھا۔ ابّا نے یہی نام رکھا تھا۔ اس میں ان کی نسبت سے فرّخی کا اضافہ یار لوگوں نے ازخود کر دیا تو میں نے بھی قبول کر لیا۔ خوشی کے ساتھ مگر پھر اس میں سے آصف، غیر ضروری سمجھ کر نکالا جانے لگا۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اوراق میں میرا ایک افسانہ شائع کیا۔ لکھنے والے کا نام اسلم فرّخی۔ میں نے نشان دہی کی تو ڈاکٹر صاحب پوچھنے لگے، اس میں غلطی کیا ہے۔

لیکن یہ معاملہ اس سے بھی پرانا ہے۔ میرے بچپن کا ایک واقعہ ہے۔ جوش ملیح آبادی کی رباعیات کے دو مجموعے نجوم و جواہر اور الہام و افکار شائع ہوئے تھے۔ رائٹرز گلڈ اس زمانے میں فعال تھا۔ اعلان ہوا کہ جوش صاحب گلڈ کتاب گھر میں آئیں گے، کتابوں پر دستخط کریں گے۔ ابّو مجھے بھی لے گئے__ وہ ادبی تقریبات میں مجھے بہت شوق سے لے جایا کرتے تھے__ کتابیں خرید کر انہوں نے جوش صاحب سے کہا اس بچّے کا نام لکھ کر دستخط کر دیجیے۔ جوش صاحب نے میرا نام پوچھا جو میرے والد نے بتایا۔ جوش صاحب نے میرے والد کی طرف دیکھا۔ شاہد احمد دہلوی سے قرابت کا علم بھی ہوگا اور اس چشمک کی کوئی چنگاری یادوں کی بھوبل میں چمکی۔ جوش صاحب نے لکھا: آصف صاحب کے بیٹے اسلم کے لیے، اور لکھ کر دستخط کر دیے۔

نام اُلٹ گئے، ابّو نے ان سے تصحیح کرنے کے لیے کہا۔ جوش صاحب نے نام کاٹ کر وہی نام دوبارہ لکھ دیے۔ مجھے یاد ہے، ابّو خاموش ہوگئے اور کتابیں لے کر وہاں سے چلے آئے۔ دستخط شدہ مجموعے مدّتوں ان کی الماری میں رکھے رہے۔

رہ گیا میں تو اس کے بعد سے میری ساری کہانی، نام کی کہانی ہے ۔ اور غالب کے الفاظ میں:

نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا

کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا

ان کے نام سے منسوب اور ان کی یادوں سے مزّین کتنے بہت سے اوراق ہیں، دل پر چھائی اداسی کی یلغار تھمے تو میں ان کو پلٹتا رہوں گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments