سانحات پر نئی نسل کے جذبات


میں آپ کی طرح ایک عام پاکستانی ہوں۔ بالکل ویسا ہی جیسے کہ آپ ہیں۔ کل سے میں ایبٹ آباد میں ہوئے واقعہ بلکہ سانحہ پر سوشل میڈیا دیکھ رہا ہوں۔ ہر کوئی اپنے غم اور غصے کا اظہار کر رہا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے بھی کچھ کرنا چاہیے۔ پھر میں نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ ماضی میں کیا کیا کرتا رہا ہوں۔

جب سولہ دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول میں 136 بچوں کو مارا گیا تھا تو میں تین دن تک روتا رہا تھا۔ فیس بک پر سیاہ ڈی پی بھی لگائی تھی۔ پھر چوتھے دن میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ پکنک منائی اور اپنا غم غلط کیا۔

اور جب سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو مشتعل ہجوم نے مار مار کر مار ڈالا تھا اور اس سارے واقعے کی ویڈیو بنائی تھی تب بھی میں وہ دیڈیو دیکھ کر دو دن بہت تکلیف میں رہا تھا۔ تیسرے دن رمضان کا نائٹ کرکٹ ٹورنامنٹ شروع ہو گیا تھا تب کہیں جا کر میرے ذہن پر سے بوجھ اترا تھا۔

پھر جب کوٹ رادھا کشن میں ایک عیسائی جوڑے کو توہینِ مذہب کے الزام میں اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا دیا گیا تھا تب تو مجھے شاید صرف دو گھنٹے کے لیے دکھ ہوا تھا۔ آخر ان دونوں نے توہین مذہب کی تھی۔ ان کے ساتھ تو جو بھی ہو جاتا وہ کم تھا۔ ہے نا؟

اور جب جوزف کالونی لاہور کے بم دھماکے کے بعد دو لوگوں کو زندہ جلا کر مار ڈالا گیا اور پھر ان کی جلی ہوئی لاشوں کو رسی باندھ کر سڑکوں پر بچے اور لڑکے گھسیٹتے پھرے تب بھی مجھے بس اتنی ہی دیر افسوس ہوا تھا جتنی دیر تک میں نے وہ ویڈیو دیکھی تھی۔

جب احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر والے واقعے میں دو سو لوگ زندہ جل مرے تھے تب مجھے افسوس سے زیادہ ان لوگوں پر غصہ آیا تھا جو مفت کا تیل لوٹنے جا پہنچے تھے۔

پھر جب میں نے وہ تصویر دیکھی جس میں ایک پانچ چھ سال کے مردہ بچے کو برہنہ حالت میں رسی سے باندھ کر لٹکایا ہوا تھا۔ پتا چلا بچے کے ساتھ زیادتی بھی کی گئی تھی اور مسجد میں لٹکا دیا تھا۔ تب مجھے اس بچے کی موت کا دکھ ہوا تھا مگر اگلے دن میں نے سینما میں فلم بھی دیکھی تھی۔

جب لاہور کے اسپتال کے دروازے پر تین سالہ بچی کو زیادتی کے بعد چھوڑا گیا تھا تب میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگا تھا مگر مجھے ایک ڈنر پر پہنچنا تھا لہٰذا میں نے ضمیر کو سلایا اور ڈنر کے لیے نکل گیا تھا۔

اور پھر جب میں نے اخبار میں پڑھا کہ ایک لڑکے کے ساتھ بدفعلی کر کے اسے عمارت سے دھکا دے کر گرا کر مار دیا گیا تب بھی میرے منہ سے بس ”اوہ شٹ“ ہی نکلا تھا۔

قصور کے بچوں کی جنسی زیادتی کی ویڈیوز کا اسکینڈل جب سامنے آیا تو میں نے پوری کوشش کی تھی کہ کہیں سے میں ایک آدھی ویڈیو ہی ڈھونڈ کر دیکھ سکوں مگر میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔ پھر مجھے پروا ہی نہیں رہی تھی اس واقعے کی۔

قصور ہی کی زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل نے پورے تین ہفتے مجھے سوشل میڈیا پر مصروف اور مغموم رکھا تھا۔ وہ تو بھلا ہو ویلنٹائن ڈے اور میری پندرہ سال کی پرجوش گرل فرینڈ کا جس نے میرا دل خوش کر دیا۔

پھر جب ایمان فاطمہ کی نچی ہوئی لاش گنے کے کھیت سے برآمد ہوئی تھی تب میرے دل کو کچھ ہوا تھا۔ مگر چونکہ سوشل میڈیا پر وہ واقعہ وائرل نہیں ہوا تھا اس لیے مجھے بھی اس کا کچھ خاص دکھ نہیں ہوا تھا۔

اب فریال والا واقعہ ہو گیا ہے۔ خوش قسمتی سے یہ واقعہ سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو چکا ہے۔ اب میں نے لسٹ بنا لی ہے کہ میں نے کیا کیا کرنا ہے۔

پہلا کام تو میں یہ کروں گا کہ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ ڈھونڈوں گا۔ اگر تو فریال کے لیے انصاف کا کوئی ٹرینڈ ہوا تو میں اس کو لائک بھی کروں گا، فالو بھی کروں گا بلکہ ری ٹویٹس بھی کروں گا۔ اس پر بہت لائک ملتے ہیں۔ پھر میں فیس بک پر جاؤں گا۔ وہاں ہیش ٹیگ لگا لگا کر اپنی وال اور ہر اس گروپ میں جہاں جہاں میں ایڈ ہوں، فریال کی تصویر اور ایک غصے سے بھری پوسٹ لگاؤں گا۔ اس کے علاوہ ایسی ہی دوسری پوسٹوں کو لائک بھی کروں گا تاکہ لوگ میری پوسٹ بھی لائک کریں۔ شیئر مل جائیں تو اور زیادہ اچھا ہو گا۔

اس کے علاوہ میں ٹویٹر، فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر ایک دن کے لیے اپنی پروفائل پکچر پر فریال کی تصویر لگا دوں گا۔ بہت لائکس ملیں گے۔ اور ساتھ ساتھ میں حکومت کو گالیاں دوں گا۔ ان کی ناکامی اور نالائقی کو کھول کھول کر پوسٹ کروں گا تاکہ میری سوشل میڈیا جنگ سے حکومت کا تختہ الٹ جائے۔
چار پانچ دن تو گزر ہی جائیں گے۔ پھر کوئی نیا واقعہ ہو جائے گا۔ نئے سرے سے ایکٹیو ہو جاؤں گا۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad