علم و کمال آپ کی میراث، کیا کہا


احتساب ہے یا سیاسی انتقام، جرم ہے یا محض دباؤ، چور ہے یا محض شور، نیب ہے یا غیب، بہرحال اتنا طے ہے کہ مجموعی صورتحال بڑی افسوسناک اور مضحکہ خیزہے۔ اس لئے کہ ایک سابق صدر، ایک پارٹی کا سربراہ اور ایک بڑے صوبے کے وزیراعلی کا نام ای سی ایل پہ ڈال دیا گیا ہے۔

قوم اپنا حساب خود لگا لے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ایک وزیراعظم سات سال کے لئے جیل میں ہے، بدعنوانی کے بے شمار الزامات اس کے سر پر ہیں۔ پنجاب کے خادم اعلی کو نادم اعلی بنانے کی کوشش جاری ہے۔ متحدہ علما کونسل کے ”پان مارکہ“ سربراہ کو نیب طلب کرچکی اور نیب کی زیر حراست شخص اسمبلی میں نیب کی طلبی کررہا ہے۔

بات یہ نہیں کہ کون مجرم ہے اور کون دودھ کا دھلا۔ کس کو ترقی کی سزا دی جارہی ہے اور کس کو اسٹیبلشمنٹ ”کینڈے“ میں رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ بات اتنی ہے کہ قومیں اپنے آئندہ سالوں اور دہائیوں کو زیر بحث لا رہی ہے۔ تعلیم، صحت، ماحولیات، سیاروں پر آبادیوں جیسے منصوبوں کی طرف رواں دواں ہے۔ لکھنے والا، عمل کرنے والا، پالیسی بنانے والا، سکول، کالج، یونیورسٹیاں، تحقیقی ادارے اور تخلیقی ذہن ایک دائرے میں مندرجہ بالامعاملات کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہیں۔ اور ہمارے ہاں اخبار اٹھا لیجیے، ٹی وی لگا لیجیے، تھڑے پہ لوگوں کے پاس کھڑے ہوجائیے، تعلیمی اداروں میں بحث و مباحثے دیکھ لیجیے شریف چور، زرداری ڈاکو، خان پاگل، باجوہ فلاں ڈھمکاں، چیف جسٹس نہ نہ نہ، ہماری گفتگو، سوچ اوربحث اسی کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔

کیا کریں ہمارے پاس کہنے، کرنے بلکہ سوچنے کے لئے کوئی اور موضوع ہی نہیں۔ معاشیات پہ سوچیں تو غیر ملکی امداد اور ڈالر کے ریٹ سے آگے ہم سوچ نہیں سکتے۔ سائنس پر سوچیں تو ہمارا ایٹم بم زیادہ تگڑا، ہماری انتہا ہے۔ عالمی سیاست پہ سوچیں تو امریکہ تباہ ہوجانا ہے اور ہمارے چین نے سب سے بڑی طاقت بن جانا ہے، یہ ہمارا محور و مرکز ہے۔ اور تو اور مذہب پہ سوچیں تو کافر کافر فلاں کافر اور فلاں جہنمی سے آگے نہ ہمارا مطالعہ ہے نہ ہی بحث۔ اسی طرح کے دو چار اور موضوعات ہیں جن پر ہر تھڑے پہ بیٹھا ارسطو اور سوشل میڈیا پر بیٹھا ہر ”سوشل دانشور“ گھنٹوں بحث کرسکتا ہے۔ اس پہ مستزاد دعوے کہ سائنس، طب، فلسفہ، معاشیات، علم حرب جیسے سارے علوم کے بانی بھی ہم اور وارث بھی۔

علم وکمال آپ کی میراث کیا کہا پرتیں نہ کھولیے میرے تحت الشعور کی

جو لوگ حقیقی علم رکھتے ہیں، جن کا مطالعہ وسیع ہے، جو ایک موضوع ہر دلائل کے ساتھ گھنٹوں بات کرسکتے ہیں وہ ہمارے نزدیک لبرل، سیکولر ( یہ خصوصیات ہمارے نزدیک راہ راست سے بھٹکے ہووں کی نشانی ہیں ) ، کافر اور جہنمی ہیں۔ پڑھیے تاکہ لکھنا آئے اور ایسے لوگوں کو سنئے تاکہ آپ کو گفتگو کرنی آئے۔ ان لوگوں کو سننے کی بجائے اور ان کے خلاف مضبوط دلیل تلاش کرنے کی بجائے ہم ان کو خاموش کر دینے کے درپے ہیں خواہ بدتمیزی سے کریں، طاقت سے یا فتوی لگا کر۔

حرف آخر یہ کہ بہت تحمل، بردباری اورغوروفکر کرنے اور عمل کرنے کا وقت ہے۔ یقیناً یہ کام عوام کے نہیں بلکہ دانشوروں اورپالیسی سازوں کو زیبا ہیں۔ جس طرح رشوت اور بدعنوانی دھیرے دھیرے ہمارے مزاج کا حصہ اور روزمرہ زندگی کا جزو بن چکی، علم اور فکر کو عوام الناس کے مزاج کا حصہ بنائیے۔
کوئی تعمیر کی صورت نکالو کوئی تازہ بنائے عشق ڈالو (رسا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).