دہشت گردی کے نئے امکانات


دنیا بھرمیں دہشت گردی کے واقعات اور دہشت گردوں کی نہ صرف تعداد بڑھتی جارہی ہے بلکہ آئے روز نئے دہشت گرد دریافت ہو ر ہے ہیں \"mujahidجو اپنے موقف میں انتہائی بے لچک اور سفاکی میں بے مثال ہیں اور نئے اہداف تلاش کرکے اُن کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ پاکستان، افغانستان، ترکی، شام، عراق اور اب بنگلہ دیش دہشت گردوں کی تیز رفتار ترقی کے سامنے بے بسی کے جیتے جاگتے نمونے ثابت ہو رہے ہیں اور امکان یہی ہے کہ بہت جلد جنوبی ایشیائی ممالک غیر ملکیوں خصوصاً یورپی ممالک کے باشندوں کے لیے غیر محفوظ ممالک قرار دے دئیے جائیں گے۔ بھارت اور ایران بھی اس فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں کیوں کہ اِن کے ہاں بھی غیر ملکیوں پر حملے آسان اہداف ثابت ہوسکتے ہیں۔ بھارت شاید اس حوالے سے زیادہ بڑا ٹارگٹ ہوگا کیوں کہ بھارت میں سیاحت کا حجم دیگر ممالک سے بڑا ہے اور ممبئی حملوں میں غیر ملکیوں کی ہلاکتوں کے بعد وہ اس حوالے سے اپنا نام درج کروا چکا ہے جہاں غیر ملکی خصوصاً یورپی باشندے نشانہ ہو سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے حوالے سے یہ ایک نیا منظر نامہ ہے جس کے خدوخال بہت حوصلہ شکن ہیں۔ پاکستان میں غیر ملکی افراد نہ صرف قتل کیے گئے ہیں بلکہ اِنہیں اغوا جیسے واقعات کا بھی سامنا ہے اور کوہ پیماوں کے قتل کے بعد پاکستان میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کے نشانے پر غیر ملکی سیاح ہی نہیں بلکہ غیر ملکی سفارتی عملہ بھی ہے، جس کی تازہ ترین مثال ڈھاکہ میں حالیہ حملے ہیں جس میں بیس کے قریب غیر ملکی سفارتی اہلکاروں کو قتل کیا گیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے غریب ممالک اس قابل نہیں کہ وہ اپنے ہاں موجود غیر ملکی سفارتکاروں کے لیے مخصوص شہر آباد کرسکیں جیسے افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج نے سفارتکاروں کے لیے ریڈ زون تعمیر کرکے اِن کی نقل و حمل اس کی چاردیواری تک محدود کررکھی ہے۔ اصولی طور پر اِن ممالک میں دہشت گردوں کی نقل و حمل محدود کرنے کی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے کم از کم جنوبی ایشیائی ممالک کے پاس وہ انفرسٹرکچر موجود نہیں اور نہ ہی انسداد دہشت گردی کے ادارے اس قابل ہیں کہ وہ دہشت گردوں کی رسائی کو محدود کرنے میں کامیابی حاصل کرسکیں۔

اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کچھ نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور دہشت گردوں کے لیے بڑے واقعات کو سرانجام دینے کے لیے درکار وسائل، جگہ اور افرادی قوت کا حصول پہلے کی نسبت بہت مشکل ہوچکا ہے لیکن اِن کو مکمل طور پر ختم کردینا آسان ہدف نہیں۔ کم از کم پاکستان کے لیے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے مکمل طور پر پاک ہونے کے لیے ابھی کئی عشرے درکار ہیں جب کہ دوسری طرف اس قسم کے امکانات زیادہ قوی ہیں کہ جن علاقوں کو دہشت گردوں سے خالی کروانے کے دعوئے کیے گئے ہیں وہاں دہشت گرد دوبارہ منظم ہوجائیں، ایسا ہمارے ہاں کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔ اس قسم کی دوبارہ آباد کاری کی سب سے بڑی وجہ ملکی سیاسی جماعتوں کی دہشت گردی کے خلاف غیر فعالیت اور عام آدمی کے عدم تحفظ کا احساس ہے جس کا ابھی تک ریاست مداوا کرنے سے قاصر ہے۔ دوسری بڑی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تربیت کا فقدان ہے۔ عام طور پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے درکار تربیت اور وسائل کے حامل ہیں لیکن کسی مخصوص جگہ پر کسی مخبری کے طفیل دہشت گردوں کو گھیر کر ختم کردینا ایک الگ عمل ہے لیکن شہروں اور دیہات میں دہشت گردوں کے نیٹ روک توڑنا اور اِنہیں نئے دہشت گردوں کی بھرتی سے روک دینا اور سماجی سطح پر ایسا ماحول پیدا کردینا کہ دہشت گردوں کو پناہ کا حصول ناممکن ہو جائے، یہ سب کچھ ابھی تک ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بس کی بات نہیں۔ اِس کی لاتعداد وجوہات ہیں ۔

انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کا سب سے اذیت ناک المیہ دانشورانہ بے ایمانی اور ڈھیٹ پن ہے، جو نہ صرف عمومی رائے سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے بلکہ ریاستی اداروں کی ترجیہات کا بھی تعین کرتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی اس لہر میں گذشتہ برسوں میں تقریباً ساٹھ ہزار افراد لقمہ اجل بنے ہیں اور قومی سلامتی کے حامل اہم ترین اداروں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے جس سے ریاست کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن شاید دہشت گردی کا صرف ایک ایسا واقعہ ہے جس کو جواز بخشنے والا صرف ایک مولوی عبدالعزیز تھا، اس کے علاوہ کسی نے ایسی جرات نہیں کی کہ وہ پشاور میں سکول کے سینکڑوں بچوں کے قتل کا جواز تلاش کرتا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اسی مولوی عبدالعزیز کو کسی قسم کی باز پرس سے بچانے میں سب سے اہم کردار پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ نے ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سینکڑوں ایسے خوفناک واقعات رونما ہوئے ہیں جن کو جواز بخشنے والے بھی سینکڑوں تھے اور یہ سب کچھ قومی ذرائع ابلاغ پر ہوا۔ کہیں غیر ملکی جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر لعن طعن کیا گیا، کہیں بھارت اور اسرائیل کے ملوث ہونے کا اعلان کیا گیا اورجب کوئی ٹھوس جواز ہاتھ نہ آیا تو یہ فتوی جاری کردیا گیا کہ کوئی مسلمان ایسی واردات نہیں کرسکتا۔ غرض ہمارے ہاں جتنے دہشت گردی کے واقعات ہوئے اُس سے زیادہ ہم نے جواز تراشے، بہانہ سازی کی اورمحض بے بنیاد قیاس آرائیوں میں اُلجھے رہے جب کہ دہشت گردوں سمیت پوری دنیا ہم پر ہنستی رہی۔

مثال کے طور پر ہمارے زبردست قسم کے دانش ور جن کی بسیار گوئی کے سامنے آج تک کوئی موضوع نہیں ٹک سکا، وطن عزیز میں فرقہ وارانہ قتل وغارت پررائے دینے سے زیادہ دعا مانگنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ اللہ کرے فرقہ پرستوں کا بیڑا غرق ہو۔ یہ دانش ور سیانے فرقہ وارانہ قتل وغارت میں مصروف گروہوں کی طرف اشارہ کرنے سے بھی ڈرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اِن میں سے ہر ایک یہ دعوی کرتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں بہت محفوظ ہیں۔ جب یہ خود کو بے بس محسوس کرنے لگیں تو فوری طور پر اعلان کردیتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتیں ہم سے بھی زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ اِن میں سے تقریباً ہر کوئی یہ دعوی کرتا ہے کہ غیر مسلم ممالک یا تو بہت جلد مسلم ممالک میں تبدیل ہوجائیں گے یا اپنی ہی جدیدیت کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ اس سے ملتی جلتی صورت حال سیاستدانوں کی ہے جن کی دہشت گردی ، فرقہ وارانہ قتل وغارت اوراقلیتوں کی حالت زارپر کوئی رائے نہیں۔ کوئی ایک آدھ اپنی تعلیم یا ماحول کے ہاتھوں مجبور ہوکر تاسف کا اظہار کرتا ہوا ملتا ہے جب کہ اکثریت پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان جیسی بصیرت کی حامل ہے جن کا اصرار ہے کہ وہ مدرسہ جس کے سابق طالب علم یا طالبان کے لیڈر ہیں یا القاعدہ کے سہولت کار، 300 ملین روپے کی خطیر حکومتی امداد ملتے ہی ایچی سن کالج کی طرح جدید  خطوط پر تعلیم کا آغاز کردے گا۔ اس قسم کی بصیرت کے ساتھ قومی سطح پر مزید نقصانات کا انتظار کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

بنگلہ دیش میں دہشت گردوں نے سفارتی اہل کاروں کو یرغمال بنا کر قتل کرنے جیسی واردات کرکے جنوبی ایشیائی ممالک میں دہشت گردوں کو مزید ایک اور’موثر‘ ہدف کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یقینی طور پر کسی ترقی پذیر ملک کے لیے یہ ایک مشکل اور مہنگا کام ہے کہ وہ اپنے ہاں مقیم تمام سفارتی اہل کاروں کو سیکورٹی فراہم کرے۔ پاکستان جیسا ملک جہاں سرکاری سیکورٹی کا حصول خالصتاً ایک سیاسی کام بن کر رہ گیا ہے۔ وہاں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اتنی اضافی نفری نہیں کہ وہ ہزاروں سفارتی اہل کاروں کو ذاتی سیکورٹی فراہم کرے جب کہ اسلام آباد جیسے شہر میں، جس کے گردونواح میں القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک کے اہم عہدیدار قتل اور گرفتار کیے گئے ہوں، خدشات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ جس شہر میں سابق وزیراعظم، گورنر اور وفاقی وزرا قتل ہو چکے ہوں اور ان گنت دہشت گردی کے واقعات رونما ہو چکے ہوں، وہاں پر مذکورہ بالا نوعیت کی ’انتہائی منتخب‘ وارداتوں کے امکان کو یکسر رد نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کو جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کی اس نئی لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا کیوں کہ کوئی ملک شاید سیاحوں کی عدم موجودگی برادشت کرسکتا ہے بیرونی سفارتی تعلقات کے بغیر نہیں رہ سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments