انصاف انصاف کی دہائیاں دیتا انصاف اور زلفی بخاری


بالآخر سپریم کورٹ نے حسبِ توقع قرار دیا کہ زلفی بخاری بحیثیتِ معاون خصوصی وزیراعظم پاکستان اپنی خدمات سے ملک و قوم کو مستفید کر سکتے ہیں مگر وہ وزیر کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتے۔ واہ جناب سبحان اللہ کیا شاندار اور انصاف پہ مبنی فیصلہ صادر فرمایا ہے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے کہ اسی نوعیت کے ایک کیس میں مسلم لیگ ن کے دور میں پی آئی اے میں چیئرمین ہوا بازی مقرر ہونے والے شجاعت عظیم کو تو گھر بھیج دیا مگر ایک نا اہل انوکھے لاڈلے کے آنکھوں کے نور، دل کے قرار کو بحیثیت معاون خصوصی نہ صرف کام کرنے کی اجازت ہے بلکہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق جیسے چاہیں حکومتی معاملات کو چلائیں۔

انصاف پچھلی کئی دہائیوں سے خود ہی انصاف، انصاف پکارتا نظر آتا ہے پاکستان میں من اور منشا کے مطابق انصاف کے تقاضوں کا طے کرنا اب تقریباً ہمارے سسٹم کا ایک حصہ بن چکا ہے ایک طرف انصاف کے لئے تڑپتے ترستے بے حیثیت عوام ہیں تو دوسری جانب انصاف کو گھر کی لونڈی بنانے والے اس ملک کی اشرافیہ ہے۔ روتا بلکتا، تڑپتا سسکتا انصاف غریب کے گھر اور محلے سے کوسوں دور جبکہ امیر و باحیثیت لوگوں کے گھر کا غلام بنا ہوا ہے۔

زلفی بخاری کیس میں فیصلے نے انصاف کی بڑی عجیب چھاپ چھوڑی ہے۔ ایک طرف دوہری شہریت کے حامل سرکاری افسران کو ملک کی سالمیت اور استحکام کے لئے خطرہ قرار دیا جاتا ہے تو دوسری جانب ایک غیر ملکی شہری کو معاون خصوصی بن کے ملک کے اعلیٰ ترین اجلاسوں میں شرکت کرنے ملک کے انتہائی اہم اور خفیہ معاملات میں شریک رہنے کی اجازت صادر فرما دی گئی چوں کہ زلفی بخاری مسلط کردہ لاڈلے کے سب سے قریبی چہیتے ہیں لہذا ان کی اہم سرکاری بیٹھکوں میں شرکت سے پاکستان کی سلامتی اور استحکام کسی صورت خطرے میں نہیں پڑ سکتا۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے وابستہ افراد اور سرکاری افراد اگر دوہری شہریت رکھتے ہیں تو وہ پاکستان کی سلامتی کے لئے اتنے خطرناک ہیں کہ خدانخواستہ ان کی موجودگی ملک کی سالمیت کو ہی نقصان پہنچا سکتی۔ عمران خان صاحب نے کچھ عرصہ قبل جب زلفی بخاری صاحب کے خلاف نیب نے انکوائری کا آغاز کیا تھا تو ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران فرمایا تھا کہ ”زلفی بخاری کے خلاف نیب نے کیس بناکے زیادتی کی ہے، وہ بے چارہ تو پاکستانی شہری ہی نہیں ہے وہ تو برطانوی شہری ہے“ اب سوال یہ ہے کہ کس قانون کے تحت ایک برطانوی شہری کو ملک کے چیف ایگزیکٹو کا معاون خصوصی مقرر کردیا گیا ہے۔

چھینکنے، کھانسنے، پر سوموٹو لینے والے انصاف کے سب سے بڑے منصب پر براجمان قاضی پاکستان کی سالمیت، یک جہتی، امن و استحکام کے لئے خطرہ بنے ایک غیر ملکی شہری کے مشیر بننے پر کیوں خاموش ہیں؟ پاکستان میں انصاف کا دوہرا معیار عوام کے انصاف کے اداروں پر اعتماد کو بتدریج کم کر رہا ہے، ایک ہی نوعیت کے مقدمات میں الگ الگ فیصلے پاکستان میں جسٹس سسٹم کو بجائے استحکام بخشنے کے اسے انتہائی کمزور اور بے اثر کرتے جا رہے ہیں۔

پاکستان بنے آج اکہتر برس بیت گئے مگر ہم آج بھی اپنے عدالتی نظام کی مضبوطی، غیرجانبداری، با اختیاری اور بالادستی کی صرف خواہش ہی کر سکے ہیں اس کو عملی جامع پہنانے سے اب تک قاصر ہیں۔ اس ملک میں تو ملک کو ایٹمی قوت بنانے والے کا عدالتی قتل کردیا جاتا ہے۔ ملک کو میزائل ٹیکنالوجی دینے والی، معاشی، جمہوری سیاسی استحکام کی داعی، عوام کی خوشحالی، امن و ترقی کے خواب دیکھنے والی وزیراعظم کو انصاف کے لئے ایک عدالت سے دوسری عدالت کے دکھے کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے، ملک کو ایٹمی دھماکے کر کے ایٹمی طاقتوں کی فہرست میں شامل کرانے والے وزیراعظم کو بے عزت و بے توقیر کرکے نا اہل کردیا جاتا ہے۔

دوسری جانب اپنی پسند کی کٹھ پتلیوں کو مسلط کرنے کے لئے انصاف کے سارے تقاضے بالائے طاق رکھ دیے جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل 62، 63 کے تحت نا اہل کرکے کیس نیب کو بھیج دیا جاتا ہے تو دوسری جانب جہانگیر ترین کو اربوں کھربوں کی لوٹ مار، اثاثے چھپانے پر نا اہل تو کردیا جاتا ہے مگر کوئی نیب، کوئی جے آئی ٹی نہیں بنتی کہ جو ان کے بے نامی کھاتوں کی چھابین کرے یا اربوں کھربوں روپے کے اثاثوں کی تحقیقات کرے۔

آصف علی زرداری ان کی بہن اور بلاول بھٹو زرداری کے خلاف جے آئی ٹی بناکر قانون و انصاف کا بول بالا کیا جاتا ہے مگر تین سؤ کنال کا بنی گالا محل کن ذرائع آمدن سے بنا پچھلے کئی سالوں سے اس محل کے کروڑوں روپے کے ماہانہ اخراجات کس طرح اور کن ذرائع سے پورے کیے جا رہے ہیں، اس معاملے پر انصاف کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کی ہمشیرہ علیمہ خان صاحبہ پر اربوں روپے کی بیرونِ ملک جائدادیں ثابت ہونے پر جرمانہ تو لگایا جاتا ہے مگر وہ اربوں روپے کہاں سے، کن ذرائع سے کمائے گئے نہ کوئی جے آئی ٹی بنتی ہے نہ ہی کوئی کیس نیب کو بھیجا جاتا ہے کہ کہیں انصاف ہی نہ داغ دار ہو جائے۔

عمران خان صاحب کی جماعت پی ٹی آئی کے خلاف پچھلے کئی سالوں سے فارن فنڈنگ کا کیس الیکشن کمیشن میں التوا کا شکار ہے، خان صاحب بحیثیت چیئرمین پی ٹی آئی پیش ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں مگر کوئی نوٹس نہیں کہ کہیں انصاف نہ خطرے میں پڑ جائے، یوسف رضا گیلانی خط نہ لکھے، توہین عدالت کا مرتکب ٹھرے، طلال چوہدری، دانیال عزیز اور کئی دوسرے سچ بولیں توہین عدالت کے مجرم، مگر عثمان بوزدار، عامر لیاقت، اور دیگر چہیتے گالیاں بکیں، پگڑیاں اچھالیں، اختیارات سے تجاوز کریں مگر معافی کے حق دار۔

شاہ رخ جتوئی اللہ رب العالمین کے بنائے قانون کے تحت قصاص و دیت کی ادائیگی کے بعد لواحقین کی جانب سے معافی ملنے کے باوجود مجرم، مگر ریمنڈ ڈیوس لوگوں کو قتل کرکے قصاص و دیت ادا کرکے باعزت بری ملک سے چلا جائے، انصاف کا تقاضا پورا ہوا، انصاف کا بول بالا ہوا۔ اب جب انصاف ہی خود سے انصاف نہ کرے تو پھر انصاف مانگنے کس کے پاس جائیں یہ سوال آج بہت ہی زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ آج زلفی بخاری جیسے لوگ دندناتے قانون و انصاف کی دھجیاں اڑاتے اپنے مخالفین پر فقرے کستے نظر آتے ہیں کہ اگر انصاف چاہیے تو اس کے لئے کسی کا چہیتا بنوں پھر قانون بھی تمہارا اور انصاف بھی۔

آج پاکستان کی اپوزیشن انصاف انصاف کی دہائیاں دے رہی ہے کل کہیں ایسا نہ ہو کہ خود انصاف ہی انصاف انصاف کی دہائیاں دیتا پھرے۔ زلفی بخاری کیس میں یک طرفہ احتساب اور انصاف کے تاثر کی نفی کرنے کا ایک بہترین موقع ہاتھ آیا تھا اگر کیس کے میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ آتا تو شاید اپوزیشن کی جانب سے انتقام انتقام کے زور پکڑتے شور میں کمی واقع ہوئی ہوتی مگر زلفی بخاری کو دوہری شہریت رکھنے کے باوجود عہدہ رکھنے کی اجازت دے کر اس شور میں مزید زور بھر دیا گیا، جبکہ اسی نوعیت کے دیگر کیسز میں تمام کے تمام لوگوں کو اپنے مناصب سے ہاتھ دھونے پڑے۔ انصاف کے اس مایوس کن معیار نے جہاں پاکستان میں جاری احتساب کی کارروائیوں میں یک طرفہ انتقام کے تاثر کو مزید تقویت پہنچائی ہے تو وہاں خود انصاف ہی انصاف انصاف پکارتا نظر آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).