عورت دشمنوں کی پلکوں پر شب و روز کو ہلکا کر دے


ثنا میر اور ان کی ٹیم انگلیڈ کے دورے پہ ہے، اس سے پہلے غالباً بھارت کے خلاف میچ میں کامیابی پر ان خواتین کرکٹرز نے اپنی جیت کو ان والدین کے نام کیا تھا جو اپنی بیٹیوں کو کرکٹ کھیلنے کی اجازت دیتے ہیں۔ پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم ہمارے لئے ایک روشن مثال ہے کہ خواتین ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں۔ لیکن پچھلے دنوں ایک اشتہار کی تمام تکنیکی خامیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے جو طوفانِ بدتمیزی شروع ہوا اور جس قسم کے الفاظ استعمال کئے گئے مجھے ذاتی طور پہ افسوس ہوا کہ ان کھلاڑیوں نے اگر یہ سب پڑھ لیا تو وہ کس اذیت کا شکار ہوئی ہوں گی۔

دانش فروشانِ ملت نے فحاشی ڈھونڈ نکالی اور ایسے ایسے زاویے بیان کئے کہ عقل حیران گئی، باؤلنگ کراتے اور ٹریننگ سیشن کے کلپ دکھا کر بتایا گیا کہ جناب یہ دیکھیں یہ فحاشی ہے۔ ایک عورت کی جسمانی ساخت اس کے لئے شرمندگی کا باعث نہیں مگر ہمارے فحش اذہان اسے ایک انسان کے طور پہ نہیں دیکھ سکتے۔ وہ ایک عورت ہے اور صرف جنسی تسکین کا باعث ہے۔ اس کا لباس، پیشہ، رہن سہن کسی بھی چیز کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار صرف ہمارے پاس ہے اس کے اپنے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ۔ اور اگر اپنی مرضی کرنی ہے تو چل بھگت پھر، ہم تجھے تاڑیں گے، اپنی ہوس پوری کریں گے، اپنی وحشت کا نشانہ بنائیں گے کیونکہ تو ہمارے فیصلے کی پاسداری نہیں کر رہی۔ اقدار اور روایات کا ڈھول پیٹنے والوں نے ہمیں کتیا، بھونکنے والی، حرافہ ،ہیرا منڈی کا مال کیا کچھ نہیں کہا۔ مطالبہ کیا گیا کہ جو مرد اس اشتہار میں فحاشی نہیں ڈھونڈ سکے وہ اپنے گھر کی عورتوں کو یوں بھگائیں اور فرنٹ سے ویڈیو بنا کر ہمیں دکھائیں تاکہ ہم انہیں بتا سکیں کہ آپ اپنی بہن، بیوی ، بیٹی کو اس زاویے سے دیکھیں تو فحاشی نظر آئے۔ یہی مطالبہ ان خواتین سے بھی کیا گیا جنہوں نے دانش فروشوں کی مزاحمت کرتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کی۔ میں نے وہ اسکرین شاٹ صرف اس لئے شیئر نہیں کئے کہ اگر اعلی اقدار و روایات کے امین افراد کے گھر کی کسی خاتون نے یہ سب پڑھ لیا تو وہ بےچاری اپنے بھائی، باپ اور بیٹے کے ڈر سے شاید گھر میں بھی خود کو لپیٹ کر رکھے کہ کہیں اس منحوس کی نظر ہمارے رشتے کی حد سے بڑھ کر میرے جسم تک پہنچ گئی تو؟

اس کے خلاف آواز اٹھائی گئی تو احساس ہوا یہ کہانی بِکنے میں کمی رہ گئی ہے بات اٹھا دی کہ باپ کی نافرمانی سکھائی جا رہی ہے اور گھر سے بھاگنے کی ترغیب دی جا رہی ہے ۔ پھر حلیمہ رفیق کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا اور خوب استعمال کیا۔ حلیمہ رفیق ملتان کی کھلاڑی تھیں اور تین سال پہلے انہوں نے خودکشی کر لی۔ اس واقعے میں اہم بات یہ تھی کلب کے کوچ پہ جنسی طور پہ ہراساں کرنے کے الزامات لگائے گئے، میڈیا پہ ایک پروگرام ہوا، خوب ریٹنگ ملی ، الزامات کی زد میں آئے مولوی سلطان عالم نے پروگرام کے اینکر اور شرکت کرنے والوں پہ ہتک عزت کا دعوی کر دیا ، یہ نوٹس گھر پہنچا تو حلیمہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئیں اور انہوں نے خودکشی کر لی۔ ایک رائے یہ ہے کہ دو کھلاڑیوں نے سلیکشن نہ ہونے پہ حلیمہ رفیق کو استعمال کیا، ان دو لڑکیوں میں سے ایک پہ پولیس کیس بھی تھا۔ کچھ لوگوں نے آواز اٹھائی کہ یہ سلطان عالم کے مخالفین نے پروپیگنڈا کیا ہے حقیقت یہ نہیں ہے جو بتائی جا رہی ہے۔ بہرحال الزامات کی سنگینی پہ پی سی بی نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی۔ اس انکوائری کمیٹی میں جب پانچ کھلاڑیوں کو بلایا گیا ان میں سے تین پیش ہوئیں جن کے نام سیما جاوید ، حنا غفار اور کرن ارشاد ہیں۔ حلف اٹھا کر تینوں میں سے ایک نے بھی جنسی طور پہ ہراساں کرنے کا الزام نہیں لگایا۔ حلیمہ رفیق اور صبا غفور کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئیں۔

یہ ایک پیچیدہ معاملہ تھا جسے میڈیا نے تب بھی ریٹنگ کی خاطر استعمال کیا، اور آج بھی یہی ہو رہا ہے کہ اس لڑکی کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ آپ حلیمہ رفیق کے ہمدرد ہیں؟ آپ سمجھتے ہیں کہ خواتین کو جنسی طور پہ ہراساں کرنا غلط ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو آپ کو خواتین کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے کہ وہ ہمت سے کام لیں اور ایسے واقعات کو رپورٹ کریں۔ ان لوگوں کی نشاندہی کریں جو جنسی طور پہ ہراساں کرتے ہیں اور اپنے ادارے کو مجبور کریں کہ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائی ۔ لیکن آپ جانتے ہیں آپ ایسا نہیں کریں گے، کیونکہ اس صورت میں جگہ جگہ ایسے ہی واقعات رپورٹ ہوں گے اور آپ کو احساس ہو گا کہ یہ معاشرہ ویسا نہیں جیسا آپ سوچتے ہیں۔

ہر دلیل کے پیچھے ایک ہی بات تھی کہ عورت، عورت کا جسم، عورت کا لباس ہی ہمارا مسئلہ ہے۔ ہم انسان نہیں، جانور ہیں۔ نوچنا جانتے ہیں۔ محفوظ رہنے کا بس یہی طریقہ ہے کہ آپ گھر سے نہ نکلیں۔ اگر نکل ہی آئیں تو لباس ہماری مرضی کا ہو۔۔۔ چلیں اب میں بتاوں؟ یہ جسے آپ محفوظ لباس سمجھتے ہیں نا اس میں بھی آپ کے لونڈے یہ کہہ کر نکل جاتے ہیں کہ آنکھیں ایسی غضب ہیں تو اندر مال بھی کمال ہو گا۔۔۔

مہربانی کریں صاحب، اگر پٹہ ڈالنا اور گھروں میں قید کرنا مقصود ہے تو ان کو ڈالیں جو سڑکوں ، گلی محلوں، دفاتر میں خود پہ قابو نہیں رکھ سکتے۔ ایک واقعے کو بنیاد بنا کر ہمیشہ کی طرح اپنے مقصد کی خاطر استعمال کیا، آخر آپ ثنا میر، بسمہ معروف اور اسماویہ اقبال کو مثال کیوں نہیں بنا سکے؟ کیونکہ اس طرح مال نہیں بِکتا نا۔ اور یہ تو اب یہاں کا اصول ٹھہرا جو بِکتا ہو وہ دِکھتا ہے ، باقی رہے ہم تو صاحب ہم بَکتے رہیں گے اور آپ کو دُکھتے رہیں گے۔

ایک آخری بات، وہ باپ، شوہر، بھائی اور بیٹے جو اس مریضانہ ذہنیت سے واقف ہوتے ہوئے بھی اپنے تحفظات پہ قابو پا کر اپنے گھر کی خواتین پہ بےجا پابندیاں لگانے کے بجائے انکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں وہ واقعی داد کے مستحق ہیں کہ وہ خود کو عقلِ کُل تصور نہیں کرتے، وہ فیصلہ کرنے کا اختیار بھی دیتے ہیں اور مشورہ بھی دیتے ہیں ۔ زندگی جینے کا یہی طریقہ ہے جو شاید بہت سے لوگ سمجھنے کو تیار نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments