حقوق نسواں کی وکالت کے ڈرامے بند کیجئیے


\"Naheedisrar\"عورت ذات ہر دور، ہر صدی، ہر سوسائٹی میں ہمیشہ گرما گرم تبصرے کا مرکز رہی ہے۔ یہ موضوع ہے ہی ایسا جس پر ہر کس و ناکس، مذہبی و غیر مذہبی اپنی رائے دینا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ اُدھر لڑکی ماں کی کوکھ میں ہی ہوتی ہے اور اِدھر پورا معاشرہ اسے اپنی ذاتی ملکیت سمجھنے لگتا ہے اور اس پدرسری حق کے پیش نظر اس کے ساتھ ہر طرح کی بدذاتی دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔

صورت حال اس حد تک بگڑی ہوئی ہے کہ چاہے عورت بیچاری اپنی ہو یا پرائی سانجھی ہوتی ہے اسی لئے تمام توپوں کا رخ اسی کی جانب رہتا ہے۔ مزاح نگار کی تحریر تب تک ادھوری ہے جب تک ایک آدھ لطیفہ عورت کے کردار، انداز یا ہیت پہ نہ کس دے۔ خود ساختہ صالحین حضرات بھی عورتوں کو ہی صراط مستقیم پر لانا عین روح عبادت سمجھتے ہیں سو بیبیوں کو \”نیک بیبی\” بنانے کی غرض سے صفحوں پر صفحے (اور آج کے ترقی یافتہ زمانے میں فیس بک کی وال ) کالے کر دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ معاشرے پر تنقید کے لئے بھی لکھاریوں کے پاس بہترین موضوع عورت ہے چاہے وہ کوٹھے کی ہو یا کوٹھی کی۔ الغرض، یہ ایک ایسا خبط ہے جو کسی صورت ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

ایک عام خیال ہے کہ عورت ذات کو اس کی انفرادیت کے باعث نہیں بلکہ ان رشتوں کی بنیاد پر معاشرے میں مقام دیا جاتا ہے جو اسے سوسائٹی تفویض کرتی ہے۔ اور یہ خیال ایسا غلط بھی نہیں کہ ماں، بیٹی، بہن، بیوی یہ سب رشتے ہی ہیں جن کا احترام معاشرہ اپنی سہولت کے پیش نظر کرتا ہے۔ جہاں ضرورت پیش آئی وہاں اس احترام کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر اپنے مخالفین کو دھول چٹانے کا بہترین طریقہ ہے اس کی ماں بہن کو غلیظ ترین القابات سے نوازا جائے …. ارے آپ کو یقین نہیں آتا؟ میری بات ثابت کرنے کے لئے یادداشت کے گھوڑے زیادہ دور دوڑانے کی ضرورت نہیں، ابھی حال ہی کی بات ہے جناب اوریا مقبول جان نے ایک موبائل کمپنی کے اشتہار پر تنقید فرمائی۔ تنقید کا فوکس اشتہار کا مرکزی کردار تھا (جو کہ ظاہر ہے ایک لڑکی ہی تھی) جس کو دیکھ کر وہ اس حد تک بے قرار ہوگئے کہ پہلے ایک کالم لکھا۔ اس پر بھی دل نہ مانا تو نیشنل ٹیلی ویژن پر پورا ایک پروگرام کر ڈالا۔ موصوف کا المیہ نامعلوم کیا ہے جو یہ اتنے عورت بیزار انسان ہیں کہ انہیں جانوروں سے بھی بدتر سمجھتے ہیں (شاید یہ ماضی کی کوئی محرومی کا شاخسانہ ہے یا پھر بچپن کی کسی دماغی چوٹ کا۔۔۔ واللہ اعلم)، بہرحال اوریا صاحب نے جو کچھ کیا، ان جیسی عقل و سمجھ رکھنے والوں سے اس کے برعکس کی امید بھی نہیں کی جا سکتی لیکن اس کے ردعمل میں بعض مبینہ \”پڑھے لکھوں \” نے ان کی والدہ پر فحش لطیفوں کی یلغار کردی، بھانت بھانت کے طنز کے تیر چلائے گئے جن کا بلاواسطہ نشانہ اوریا صاحب کی والدہ تھیں۔ اعتراض کرنے پر جواز پیش کیا گیا کہ اوریا صاحب بھی خواتین کے بارے میں اناپ شناپ بکتے ہیں چناچہ ان کی والدہ کے ساتھ یہ سلوک برحق ہے۔ بھیا پھر تو اس حساب سے گزشتہ دنوں لاہور میں ایک مسیحی خاتون کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ بھی بالکل درست ہوا، یا جرگہ وغیرہ میں جو باپ بھائی کے گناہوں کی سزا بہن بیٹیوں کو ملتی ہے وہ بھی جائز ہوگی۔ اگر انسانی حقوق خصوصاً حقوق برائے خواتین کے نام نہاد علمبرداروں کے اس فلسفے کو مان لیا جائے تو ونی، کاری جیسی رسمیں بھی بلکل حق پر ہیں، پھر اتنا واویلا کس بات کا ہے ۔۔۔۔۔ کیوں؟

کیا واقعی معاشرے میں خواتین کو درپیش مسائل کی وجہ کوئی مخصوص گروہ، طبقہ فکر یا مسلک ہے؟ حقوق انسانی کے روشن خیال علمبردار بھی اس \”نیک\” کام میں اتنے ہی پیش پیش ہیں جتنے تنگ خیال، دقیانوسی سوچ کے حامل افراد۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ تنگ نظر، عورت بیزار کھلے بندوں نفرت کا اظہار کرتے ہیں جبکہ روشن خیالی کی مالا جپنے والے دوغلے لوگ انسانی حقوق کی آڑ میں اپنی بھڑاس نکالتے ہیں۔ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے دونوں ہی عورت ذات کا استعمال کرتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ حقوق نسواں کے لئے آخر الذکر کا طریقہ واردات مخصوص ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ عورتوں کے حوالے سے ہتک آمیز رویہ پدرسری معاشرے کی ذہنی نشونما میں گہرائی تک نقش ہے اور چاہے آپ روشن خیالی کے جتنے دعوے کرلیں موقع بہ موقع یہ نقش اپنی جھلک دکھلا ہی دیتا ہے۔ اگر پارلیمینٹ میں کسی خاتون ایم پی اے کی تضحیک کی جاتی ہے تو اس پر واویلا کرنے سے پہلے ذرا کبھی مذکورہ خاتون کے لئے سوشل میڈیا پر استعمال ہونے والے زبان ملاحظہ کرلیجیے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس حمام میں ستربند کوئی بھی نہیں۔

آپ کو خواتین کے ساتھ تحقیر آمیز رویے پر اعتراض ہے تو پہلے اپنے سوچ کے زاویے کو بدلئے۔ اپنی سہولت کے پیش نظر ان کے مقام و احترام کا ڈرامہ بند کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments