ایک خواب، اسحاق ڈار اور ہذیان نویسی


\"husnainمیں ان کے یہاں نوکری کرنے گیا تھا۔ ان کی بغل میں بیٹھا ان کو دوائیاں لکھتے غور سے دیکھ رہا تھا۔ سانولی رنگت، کمزور سا جسم، سفید بال، جھکے ہوئے ہیں اور لکھے جا رہے ہیں۔ میں نے جھانکا تو ان کا تعارفی کارڈ ساتھ پڑا ہوا تھا۔

\”تو آپ 1952 سے مطب کر رہے ہیں؟\” میری طرف غور سے دیکھنے لگے۔ انکار میں سر ہلایا اور بولے \”میں یہ زبان نہیں سمجھتا\” میں نے دوسری زبان میں پوچھا تو مجھے گھور کر دیکھنے لگے۔ مختصر سا جواب دیا، ہاں کہا اور اپنے کام میں لگ گئے۔

\”تو آپ اس وقت سے یہ کام کر رہے ہیں جب ریڈیو کے ابتدائی دن تھے، آج زمانہ کتنی ترقی کر چکا ہے، آپ کو عجیب سا نہیں لگتا۔\” میں صرف اپنے کام سے دلچسپی رکھتا ہوں۔\” وہ خلاوں میں کچھ دیکھے جا رہے ھے۔ ان کے بہت سے لے پالک بچے ان کے آس پاس گھوم رہے تھے۔ وہ بچے اب بچے نہیں تھے لیکن ان کے لیے وہ بچے ہی تھے۔ تھائی لینڈ کی ملینا ڈائی ورسڈ، وہ عجیب بدتمیز سا جاوید کریکو، اور وہ ان کا شاگرد رشید کرامت کھسکی اور منگول نقش لیے وہ سنکی سی بچی جو نہ جانے کب سے مسلسل کتھک کیے جا رہی تھی۔ اسے یہ معلوم تھا کہ اس کے باپ کو یہ رقص پسند ہے، وہ ناچ رہی تھی اور خود سے بے خود تھی۔ ٹی وی کوئی لایعنی فلم چلا رہا تھا جسے دیکھنے والا کوئی بھی نہیں تھا، لیکن وہ منظر کا حصہ تھا۔

\”آپ کو بنگالی گانے پسند ہیں؟ وہ مہویشہ ابھی نیا آیا ہے، کیا سنا ہے وہ آپ نے؟\” بنگالی کے ذکر پر وہ ایک دم سب چھوڑ چھاڑ کر میری طرف دیکھنے لگے۔ میرے ذہن میں اڑتے پرندے کی طرح یہ بات آئی تھی، اس کا تعلق نہ ماضی سے تھا نہ حال سے، میں ہرگز یہ نہیں جانتا تھا کہ ان بوڑھے میاں کی دلچسپیاں کون کون سی ہیں۔ مجھے تو بس ان سے بات کرنی تھی، منظر کا حصہ تھا میں، تو میں بات کر رہا تھا، یہ بات میں نے کیوں کی، یہ بھی میرے علم میں نہیں تھا۔ \”ہاں مجھے وہ بہت پسند تھا، ایکلا چولو رے، وہ بہت زبردست گانا تھا یار\” ان کی آنکھوں میں بات کرتے ہوئے ایک چمک سی آ گئی تھی۔ \”ٹیگور سب سے اچھا لکھتا تھا، ناریندر نے بھی گانے لکھے، نذرل بھی لکھتا تھا مگر ٹیگور مجھے اپنے قریب لگتا تھا۔\”

وہ شکل سے بنگالی نہیں لگتے تھے لیکن میری زبان نہیں سمجھتے تھے، دوسری زبان جس میں ہم بات کر رہے تھے وہ بھی بنگالی نہیں تھی۔ وہ پاگل لڑکی ان تھک رقص میں مصروف تھی۔ یہ سب بچے انہوں نے انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت اور اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے پالے تھے۔ اپنے بچے کسی اور ملک میں تھے، وہاں خوش تھے، یہ یہاں ان کے ساتھ خوش ہو گئے۔ ان سب بچوں میں کوئی نہ کوئی کمی بہرحال تھی، مجھے کوئی بھی جسمانی طور پر بالکل ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ ملینا ڈائیورسڈ بہت چھوٹے قد کی تھی، اس کے قصبے میں رواج تھا کہ علیحدگی کے بعد نام کے ساتھ طلاق یافتہ لکھتے تھے تاکہ کوئی دوسرا رجوع کر سکے۔ جاوید کریکو پھٹی آنکھوں اور موٹی ناک والا بچہ تھا جو بہت زیادہ باتیں کرتا تھا اور اس کے گھنےبالوں سے عجیب سی بدبو آتی تھی، وہ ہر وقت سلیٹی رنگ کے کپڑوں میں رہتا تھا۔ کرامت کھسکی کے ڈاڑھی مونچھ نہیں تھے۔ کالے بال پیچھے کو الٹے ہوئے وہ ایک نارمل انسان لگتا تھا لیکن اس کی آنکھیں کسی نشہ کرنے والے کے ایسی تھیں۔ تو یہ تینوں اسی منظر میں وہیں موجود تھے۔ جب یہ منظر بن رہا تھا اگر میں اس وقت موجود ہوتا تو شاید بہت سی چیزیں ایسے نہ ہوتیں۔ اس وقت مگر وہاں میں نہیں تھا۔ اب میں کچھ کر نہیں سکتا تھا۔

اس منظر میں بہت گڑبڑ تھی، خاص کر وہ منگول لڑکی اکیسا، وہ بغیر رکے ناچتی جا رہی تھی، اب وہ گول گول گھوم رہی ہے، اسے اتنا زیادہ گھومتے دیکھ کر مجھے بھی چکر آ رہے ہیں اور میری آنکھیں بند ہو رہی ہیں۔

اب آنکھ کھل چکی ہے۔ صبح آٹھ بجے پانی پی کر سویا تو یہ خواب شروع ہوا، اٹھا تو پندرہ منٹ ہوئے تھے یعنی سوا آٹھ۔ کل پندرہ منٹ میں یہ خواب دیکھا گیا۔ اگلے تیس منٹ میں لکھا گیا مگر جزیات پھر بھی مکمل نہیں ہیں۔ آنکھ کھلتے ہی لکھنا شروع کیا تھا، جو جو یاد آیا، سب کچھ لکھ دیا۔ اس وقت تاثر یہ تھا کہ پندرہ منٹ میں نہ جانے کیا کیا کچھ دیکھ لیا، کاغذ پر منتقل کرنے میں تیس منٹ لگے لیکن بہت کچھ رہ گیا۔ کیا رہ گیا، جو یاد نہیں ہے لیکن یاد ہے۔ تو بس یہ ایک خواب تھا، جانے دیجیے۔

جب اسحاق ڈار کہہ سکتے ہیں کہ مہنگائی چھیالیس سال میں کم ترین سطح پر موجود ہے تو یہ خواب کیوں نہیں لکھا جا سکتا؟ پاکستان کی معیشت، زر مبادلہ کے ذخائر، ٹیکس محصولات ہر طرف انہیں ہرا دکھائی دے رہا ہے اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں اور ایک قومی روزنامہ اس بات کو ذمہ داری سے چھاپ دیتا ہے بلکہ یہ خبر سب سے بڑی سرخی بنتی ہے، تو پھر کچھ بھی لکھا جا سکتا ہے۔ جب خبریں بلکہ سرخیاں اس قسم کی آ رہی ہوں کہ جن کو سوچنے اور بولنے میں پندرہ منٹ بھی نہ لگے ہوں تو ایک آدھا کالم ایسا پڑھنے میں کیا حرج ہے جسے سوچنے اور لکھنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ لگ گیا ہو۔

شدید لوڈ شیڈنگ سے شہری مشتعل، کئی سڑکیں جام ہونے کی خبر، مظاہروں اور ٹائر جلنے کی خبر، عید کے کپڑے مانگنے پر بیوی بچوں کو مار دینے کی خبر، کپڑے نہ ملنے پر خود کشی کرنے کی خبر، رمضان بازاروں میں گلا سڑا مال ملنے کی خبر، یہ سب خبریں اسی اخبار میں الگ لگی ہوئی ہیں، چھوٹا گوشت صاف ستھرا ساڑھے آٹھ سو روپے کلو سے بھی اوپر جا چکا ہے، لوڈ شیڈنگ کے باوجود بجلی کا بل پورے سال میں سب سے زیادہ آ رہا ہے، غربت نہ جینے دے رہی ہے، نہ مرنے دے رہی ہے، پورے ملک کا واحد مسئلہ اس وقت جینا ہے۔ جیا کیسے جائے، حالات کو گزار کر یا حالات سے گزر کر، کوئی صورت ہو، مگر کیا ہو؟

جو بھی صورت ہو اسحاق ڈار صاحب اور صالح صحافیوں کو سب اچھا دکھے گا۔ ایک صاحب آدھی صدی کے قلابے ملائیں گے، دوسرے حکم رانوں کو پنچ وقتہ نمازی و پرہیزگار ثابت کرنے پر لگے رہیں گے، پیچھے رہے عوام، تو عوام ایسے خواب ہی دیکھیں گے، جن کا نہ کوئی سر ہو گا نہ پیر۔ خوابوں کا ویسے بھی سر پیر ہونا ضروری نہیں!

کالم کی دم: یہ ہذیان نویسی بس ایک سرخی کی پیداوار ہے۔ اسے سنجیدگی سے پڑھنے کا مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔

 

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments