سوات کوہستان ایک لانچنگ پیڈ


چند دنوں قبل ایک مقامی موقر اخبار میں ایک ’سپر لیڈ‘ پڑھنے کو ملی، جس کا متن کچھ یوں تھا ”گرلز ہائی سکول کالام میں میڑک کی طلبات کا استانیوں کی عدم موجودگی کے خلاف احتجاج“ یہ خبر پڑھ کر ایک بار پھر قلم نے جنبش لی کہ پھر اس بارے میں بیان ہو جائے ”تعلیمی انقلاب“ کے۔ خبر کی تفصیل میں جاتے ہوئے پڑھا کہ طالبات نے اعلیٰ حکام سے اسکول میں غیر حاضر ٹیچینگ اسٹاف کی حاضری یقینی بنانے اور خالی اسامیوں کو جلد از جلد پر کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

ویسے یہ بات ہمیشہ مایوسی میں مبتلا کردیتی ہے کہ تحصیل بحرین کے دور دراز بالائی علاقوں کو سرکاری محکموں نے ہمیشہ ایک ”لانچنگ پیڈ“ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان علاقوں کے سرکاری اداروں میں غیر مقامی افراد کو بھرتی کرکے لانچ کیا جاتا ہے اور بعد میں ان کے تبادلے ان کے اپنے شہروں میں ہو جاتے ہیں۔ ان علاقوں کے تمام اسکولوں اور اسپتالوں کے لئے ہر دور میں محکموں کی طرف سے خالی آسامیوں کی تشہیر کی گئی ہے لیکن بد قسمتی سے علاقے میں تعلیم یافتہ نوجوانوں اور خواتین کی اتنی کمی ہے کہ یہاں سے کوئی بھی، ان خالی آسامیوں پر تعینات ہونے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ تمام کے تمام خالی پوسٹوں پر غیر مقامی افراد بھرتی ہوتے ہیں اور ایک دو مہینے کے بعد وہ اپنا تبادلہ اپنے ہی علاقے میں کرواتے ہیں اور اسی طرح ایک بار پھر علاقے کے اسکول، اساتذہ سے اور اسپتال، ڈاکٹرز سے محروم ہو کر رہ جاتے ہیں۔

خیر اسپتالوں کی تعداد ہی اتنی نہیں کہ اسامیوں کی تعداد بھی بڑھ جائے، ایک آدھ اسپتال موجود ہے، جو ڈسپرین اسپرین پر چلتے ہیں۔ لیکن پرائمری سطح کے اسکولوں کی ایک بڑی تعداد بہرحال موجود ہے، جو حکومت کے اس نا روا سلوک کی وجہ سے سال بھر خالی پڑے رہتے ہیں۔ اس مسئلے کے لیے ہم نے ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے لیکن ابھی تک سب نے سنی ان سنی کر دی ہے۔ علاقے میں تعلیم یافتہ افراد کی کمی ہے اور زیادہ تر لوگ علاقے سے باہر محنت مزدوری کرتے ہیں اور انھیں پتا تک بھی نہیں ہوتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور میرٹ کس بلا کا نام ہے۔

میڈیا سے دوری کی وجہ سے میں بھی اس مسئلے کو بھول ہی چکا تھا، کہ کل فیس بک پر محکمہ تعلیم کی طرف سے خالی آسامیوں پر تعینات سی ٹی  اور ایس ایس ٹی کے بارے میں پوسٹ پڑھنے کے بعد پتا چلا کہ علاقے کے اسکولوں کو ایک بار پھر سے بھرا جا رہا ہے۔

علاقے کے زیادہ تر اسکول اسی وجہ سے سال بھر خالی پڑے رہتے ہیں اور طلبا و طالبات کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔ پہلے کی طرح 2016 / 17 میں بھرتی کیے گئے تمام اساتذہ نے اپنا تبادلہ اپنے ہی علاقے کے اسکولوں میں کرالیے ہیں، اور انھی خالی اسامیوں کو دوبارہ پر کرنے کے لئے محکمہ تعلیم نے اخبارات میں اشتہار جاری کر دیا ہے۔ ایک بار پھر سے انھی اسکولوں میں غیر مقامی افراد ٹسٹ میں بازی لے کر میرٹ لسٹ پر سہر فرست پر آ گئے ہیں۔

سوات کے بالائی علاقوں میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور اس مسئلے کو تب تک حل نہیں کیا جا سکتا، جب تک اس علاقے ( تحصیل بحرین) کو ہارڈ ایریا قرار نہ دیا جائے۔ علاقے کو ہارڈ یعنی مشکل زدہ علاقہ تسلیم کر کے یہاں میرٹ کو نیچے رکھا جائے اور مقامی افراد کو مقامی اسکولوں میں بھرتی کر کے خالی آسامیوں لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے انھیں مستقل طور پہ پر کیا جائے۔ جب ایک بار علاقے کے مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے گا، تو ان اسکولوں میں ایک طویل عرصے تک آسامیاں خالی نہیں ہوں گے۔ اسی طرح بچوں کا قیمتی وقت بھی ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔

حالیہ دنوں میں محکمہ تعلیم نے سوات، کوہستان کے دور دراز علاقوں جن میں کالام، بحرین، مانکیال، توروال، درولئی، اشو، اتروڑ اور گبرال کے اسکولوں کو سی ٹی اور ایس ایس ٹی کے پوسٹ دیے تھے، جن پر تحصیل سوات کوہستان کا کوئی امیدوار بھی میرٹ پر پورا نہیں اتر سکا۔ زیادہ تر لوگوں کا تعلق منگورہ، خوازہ خیلہ، بریکوٹ اور چار باغ اور دیگر زیریں شہروں سے ہے۔ یہی اساتذہ بھرتی ہونے کے بعد اپنا زیادہ تر وقت اپنے تبادلوں کے لئے دفتروں کے چکر کاٹنے میں گزارتے ہیں اور ڈیوٹی پر لگنے سے ایک دو مہینے بعد اپنی تبادلہ اپنے ہی مقامی علاقوں میں کر کے اسکولوں کو ایک بار پھر خالی چھوڑ کر طلبا و طالبات کا مستقبل داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

ایم۔ ایم۔ اے حکومت نے ’پی ایس ٹی‘ یعنی پرائمری اسکول ٹیچرز کے لئے یونین کونسل بیسڈ پالیسی بنا کر مقامی لوگوں پر ایک بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اسی پالیسی کی وجہ سے علاقے کے اکثر پرائمری اسکولوں میں مقامی ٹیچرز تعینات ہیں اور اسکولوں میں دن بدن بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت چوں کہ تعلیم اور صحت کے میدان میں تبدیلی لانے کے لئے کو شا ں ہے، اسی لئے عوام پی۔ ٹی۔ آئی حکومت سے حقیقی معنوں میں تبدیلی لانے کی امید رکھتی ہے۔

محکمہ تعلیم سے گذارش ہے کہ وہ سی۔ ٹی اور ایس۔ ایس۔ ٹی کے پوسٹوں پر بھی مقامی افراد کی تعیناتی کو یقینی بنا کر علاقے کے ایک اہم مسئلے کو حل کریں۔

لکھاری کے بارے میں:
مجاہد توروالی فری لانس لکھاری اور سماجی کارکن ہیں، اور محکمہ تعلیم میں پرائمری ٹیچر کے طور پر کام کر رہے ہیں
مجاہد توروالی @Mujahidtorwali پر ٹویٹ کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).