پاکستانی اشرافیہ اپنی اصلاح کا ارادہ نہیں رکھتی



\"ibarhim فوجی ترجمان اور ترجمان وزرت خارجہ کے بیانات تقریباََ ایک جیسے ہیں کہ فوج جمہوریت میں یقین رکھتی ہے۔۔ اب ایسا کہنے کی ضرورت کیا؟ اور کوئی ترجمان کتنی بھی شد مد سے ایسا کہہ بھی دے لیکن نوشتہ دیوار پر تو صاف صاف لکھا دکھائی دے رہا ہے۔
جنرل ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک جتنے بھی مارشل لا لگائے گئے وہ کس کھاتے میں گئے؟ کیا وہ تمام فیصلے ایک ایک کر کے فرد واحد کے فیصلے تھے؟  ہم تو ماشااللہ وہ قوم ہیں جن کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز نے ایسے ایسے گل کھلائے لیکن سب کے سب اپنی غلطیوں پر کاربند رہے، کوئی اپنی غلطی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ جنرل ایوب خان کے پہلے مارشل لا کا بظاہر کوئی سبب نہیں تھا لیکن کیوںکہ جنرل صاحب کو ملک بنانے والے سیاستدانوں کی روش پسند ہی نہیں اس لئے انہوں نے ایسا کام کردیا کہ وہ ملک ہی بدل گیا۔ اگر جمہوریت کو وقت دیا جاتا تو اکثریت پر اقلیت کے غالب ہونے کا تصور ہی کہیں دفن ہوجاتا پھر نہ محرومیاں نہ ہی عدم مساوات جنم لیتی۔ اگر جنرل ایوب اپنی ذاتی اقتدار کے ہوس پر ضبط کرتے تو شاید یہ ملک نہ ٹوٹتا لیکن آج تک اس مارشل لا کو غلطی کہنے کے بجائے ایوب خان کے پیشروؤنں نے ان تمام اقدامات کا دفاع کیا بلکہ مزید اس جیسے یا اس سے بڑھ کر اقدامات کئے۔۔
اگر فوج جمہوریت کی حامی  ہوتی تو یہ حالات کبھی پیدا نہیں ہوتے جو اس وقت موجود ہیں، وزیراعظم ملک میں موجود نہیں، خارجہ پالیسی جہاں سے بنتی چلی آ رہی ہے وہاں سے چل رہی ہے، پاکستان میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک وزیراعظم ہو لیکن وہ باہر بیٹھ کر حکمرانی کرے، ملک میں کیا افواہیں گردش کر رہی ہیں ان سب کو کوئی مانے یا نہ مانے لیکن اس میں تو سچائی ہے کہ وزیراعظم جو اختیارات چاہتا ہے وہ باقی ادارے دینے سے انکاری ہیں اور اقتدار میں اختیارات کی ایک سرد جنگ کافی عرصے سے چل رہی ہے۔

کوئی سنجیدگی سے حالات کا جائزہ تو لے، گلوبل ولیج کے زمانے میں ہم اقوام عالم میں کہاں کھڑے ہیں؟

امریکا کا ایف سولہ دینے سے انکار، مالی امداد دہشتگردی کے خلاف جنگ سچائی کے ساتھ لڑنے سے مشروط، اور ڈور مور ڈور کا مطالبہ بار بار دہرانا، یہ ہے ہمارے دیرینہ دوست اور ہمیں فرنٹ لائین کے طور پر استعمال کرکے لڑانے والے ملک کا حال ہے۔ اتنی جانی اور مالی قربانیوں، نقصانات کے باوجود ہم پر ہمارا دوست کیونکر اعتبار نہیں کرتا؟ نہ کبھی اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت پیش آئی نہ ہی کبھی ہم نے اپنی غلطیاں درست کرنے کا سوچا۔

ابھرتے ایران کی حیثیت ماننے سے انکار، خود کو ان پر بالاتر سمجھنے کی روش، ایران کو معمولی ملک سمجھ کر را کے ایجنٹ کلوبھشن یادو کے سہولتکار کے طور پر پیش کرنا اور سرحدی تنازعات کے کئی گلے شکوے، باہمی معاملات پر سرد مہری یا عدم تعاون، نہ اپنی اصلاح کرنا نہ اپنی خارجہ پالیسی کی اس ناکامی کو تسلیم کرنا پھر بھی چابہار بندرگاہ کے معاہدے پر ایران سے گلہ شکوہ کرنے کی کوئی تک بنتی ہے؟ سب کو اپنے معاملاات سنبھالنے اور مسائل حل کرنے ہوتے ہیں ایسی صورت حال میں اگر ایران بھارت سے یہ معاہدہ نہ کرے تو کہاں جائے؟ اور ہم ایران پر بھڑکیں گے یا پھر بھارت کو کوسیں گے بس۔۔۔ دل کا غبار نکال کر بیٹھ جائیں کے لیکن غلطیوں سے باز نہیں آئیں گے۔

بھارت کا تو معاملہ ہی الگ ہے، بھارت کے دوست کو دشمن تسلیم کرنے کی پالیسی، بات کرنے سے مسلسل انکار، دوستی کے بیان کو سازش کہنا، بھائی چارہ کی فضا کو ختم کرنا، دوطرفہ تعلقات کو پیچھے دھکیل دینا، بات کشمیر سے ہی شروع کی جاسکتی ہے اگر نیت ہے تو، اگر دور دور تک بات کرنے کے امکان ہی نہیں ہوں تو پھر بھارت کو کیا ضرورت ہے؟ بھارت بھی پوری دنیا کی بانہوں میں بانہیں دے کر کھڑا ہوا ہے اور ہمارے مشیر خارجہ بس یہ ہی بیان دیتے ہیں کہ اگر نریندر مودی دو مسلم ملکوں کا دورہ کرتے ہیں تو پاکستان اکیلے پن کا شکار کیسے ہوگیا۔ مطلب یہ کہ ڈگر تبدیل نہیں کرنا، قصہ وہیں کا وہیں، پھر شکایت یہ کہ عالمی دنیا ہمیں استعمال کرکے مشکل وقت میں پوچھتی نہیں۔۔

افغانستان کے حالات اور ہماری اس بارے سوچ بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ طالبان کا لیڈر ملا منصور اختر ہماری سرزمین سے دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کرے، ہمارا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ استعمال کرے، اور پھر مارا بھی ہماری سرزمین پر جائے۔ ساری دنیا کو مطلوب دہشتگرد، القاعدہ کا سربراہ کدھر تھا، کیسے تھا، کیوں تھا، کسی کو کوئی پتہ نہیں لگا؟ پھر ایک دن لینے والے لے کر چلے گئے۔ اگر افغانستان دہشتگردی کے لئے ہماری زمین کے استعمال ہونے کا الزام لگائے تو ہم اس کی تردید کرکے اسے غلطی کا پلندہ قرار دیں اور بس مگر ہم غلطی سدھارنے کے لئے کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ چلو مان لیتے ہیں کہ افغانستان بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے لگ گیا ہے، لیکن ہم نے اسے اپنے ساتھ کھیلنے کی دعوت کیوں نہیں دی یا وہ ہمارے جوڑ میں کیوں نہیں آتا؟

سعودی عرب کے تعلقات میں تب سے وہ کشش اور گرمی نہیں رہی جب سے ہم نے ان کو فوج دینے سے انکار کر دیا، چین راہداری تک تو تعاون کرنے کے لئے تیار ہے لیکن آپ جو دفاعی تعاون کی امیدیں لگا کر بیٹھے ہیں ان سے اس کا کوئی واسطہ تعلق نہیں۔ جب دنیا آپ کو شک کی نگاہ سے دیکھ کر آپ پر اعتبار کرنے سے انکار کردے، آپ کے دوست ممالک آنکھیں پھیر دیں، پڑوسی آپ پر آئے روز دہشت گردی کا الزام لگاتے رہیں، پھر بھی ہم کسی کی بات پر کان دھرنے کے بجائے خود کو پھنے خان سمجھ رہے ہوں یہ ہے ہماری خارجہ پالیسی۔
ضمیر حسین جعفری 1965 کی اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ \’\’لیاقت علی خان دورہ روس کی دعوت کو مسترد کر کے امریکا چلے گئے تھے، آج تک اس پر تنازعہ چل رہا ہے کہ ان کا یہ قدم غلط ہے یا درست ہے۔ میاں افتخار الدین کی تقریر مجھے یاد آتی ہے کہ اس خطے میں رہتے ہوئے چین اور روس کو نظر انداز نہ کرو مگر اس کی کسی نے نہ سنی۔ جناب لیاقت خان کا دورہ امریکا پاکستان کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی غلطی مانا جاتا ہے، جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، اگر کہا جائے کہ عالمی سطح پر ہماری تنہائی 1947 کے اس دورے سے شروع ہوتی ہے تو کوئی اس میں کیا غلط ہے۔ 1947 کو کئی سال بیت چکے جو ہوا سو ہوا، اب اگر ماضی کی غلطیاں ٹھیک نہیں ہو سکتیں تو خدارا نئی غلطیوں سے تو باز آ جاؤ۔۔۔ لیکن ہم نے بھی طے ہی کر لیا ہے کہ کسی بھی محاذ پر نہ غلطی ماننی ہے نہ اس کا ازالہ کرنا ہے اور نئی غلطیوں سے باز آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments