محمود خان اچکزئی بھی غدار ٹھہرے۔۔۔


\"anwarاسے پاکستان کی بدقسمتی کہیں یا کچھ اور کہ قیام پاکستان کے بعد اس کے چاچے اور مامے وہ عناصر بن بیٹھے جن کا قیام پاکستان کی جدوجہد میں رتی بھر کردار نہیں تھا۔ اور جنہوں نے اس مملکت خداداد کو دنیا کے نقشے پر دیکھنے کے لیے اپنا تن من دھن اور مال و عزت اور دولت تک قربان کر نے میں فخر اور ناز کیا وہ لائق لعن طعن ٹھہرا دئیے گئے۔ اس سلسلے میں جی ایم سید، نواب اکبر بگٹی، سر شاہ نواز بھٹو اور ان کا پورا خاندان اور حقیقت تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن، حسین شہید سہروردی جیسے تحریک پاکستان کے معروف قائد کے شاگردوں سے تھے انہیں بھی غدار غدار کہہ کر پرایا بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بنگلہ دیش معرض وجود میں آگیا۔ پاکستان سے ہماری محبت کا عالم یہ ہے کہ پاکستان کی محبت کی آج تک سزا بھگتنے والے پاکستانی جنہیں ہم بہاری کہتے ہیں انہیں قبول کر کے پاکستان واپس لانے کو تیار نہیں۔

سیاسی حکومتیں تو شائد یہ کڑوا گھونٹ پی لیں لیکن اصل مسئلہ تو اسٹیبلشمنٹ کا ہے، وہ قبول کرنے میں حیل وحجت سے کام لے رہی ہے۔

حسین شہید سہروردی اور دیگر تحریک پاکستان کے ان رہنماؤں کے ساتھ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے جو سلوک کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ ممکن ہے کہ ان رہنماؤں کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد انہیں کانگریسی رہنماؤں سے آنکھیں چرانی پڑ رہی ہوں۔ کیونکہ قیام پاکستان کے مطالبے پر ان کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا وہ بہت حد تک درست ثابت ہوئے۔ لیکن ایسے ہی سلوک کے وہ رہنما مستحق نہیں ٹھہرائے گئے جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے دست حق پرست پر بیعت کرلی تھی اور ابھی تک اس بیعت پر قائم ہیں۔ اور اس بیعت کے عوض پاکستان کے تمام وسائل ایسے رہنماؤں کی دسترس میں دے دیے گئے اور وہ اس سے خوب مستفیض ہوئے بلکہ ان کی سات پشتیں بھی اسٹیبلشمنٹ کے گیت گاتی رہیں گی۔ اور ہر مشکل میں وہ اسٹیبلشمنٹ کے کام آتی رہیں گی۔

آج کی نوجوان نسل شائد اس حقیقت سے لاعلم ہے کہ صوبہ سندھ کو ممبئی سے الگ کرنے میں سرشاہ نواز مرحوم نے انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا اورقیام پاکستان کے لیے سندھ اسمبلی میں پاکستان کے حق اٹھنے والی آواز سائیں غلام محمد سید( جی ایم سید) کی تھی اور باچا خان مرحوم کی انگریزی تسلط سے ہندوستان کو آزاد کروانے کے لیے کی جانے والی جدوجہد سے انکار ممکن نہیں لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ان دونوں رہنماؤں کو غدار کے القابات سے نوازا۔ ایوب خاں اور ان کے رفقائے کار نے اپنے شخصی اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے قائد اعظم کے مخلص رفقائے کار کو کالے قانون ایبڈو کے ذریعے نااہل قرار دے کر سیاست کے دروازے ان پر بند کردئیے۔ لیکن جن مفادات پرستوں نے ایوب خاں اور ان کے رفقائے کار کی ہاں میں ہاں ملانے کی حامی بھری انہیں محب وطن ہونے کے سرٹیفیکیٹس عطا کیے گئے۔ آج بھی مشرقی پاکستانیوں کو الگ ہونے کے راستے پر چلنے پر مجبور کرنے والوں پر تنقید کو غداری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ روش نہ جانے کہاں جا کر رکے گی؟

آج کل اسٹیبلشمنٹ کے دسترخوان سے اپنے پیٹ بھرنے والے کالم نگار، تجزیہ نگار اور صحافیوں میں وہ بھی شامل ہیں جنہیں صحافت کی ابجد کا بھی علم نہیں مگر وہ ممتاز قومی سیاستدان و رہنما محمود خان اچکزئی کے ایک انٹرویو کی بنیاد پر ’’قلم کی لٹھ‘‘ لے کر ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ محمود خان اچکزئی نے کوئی ایسی بات نہیں کہہ ڈالی جو قابل تعزیر ہو۔ انہوں نے تو بس یہی کہا ہے کہ خیبر پختونخوا افغانیوں کا ہے انہیں خیبر پختونخوا سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ جس تناظر میں محمود خان اچکزئی نے بات کی ہے ایسے ہی سارے جہاں کو مسلمانوں کا وطن قرار دیا ہے۔ بعض صحافی، کالم نگار و تجزیہ نگار ان کے بیان میں سے پاکستان اور عالم اسلام کے خلاف یہودیوں کی سازش تلاش کر رہے ہیں اور یہ کہہ کر کہ’’ کچھ بعید نہیں کہ مسٹر اچکزئی بھی اس سازش کا ہی حصہ و ایک کردار ہوں‘‘شریف النفس اور باعزت سیاستدان کے کردار کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ انہیں عرب ممالک اور پاکستان کے نقشوں میں تبدیلی کے لیے عالمی سازش سامراج کی تیار کی گئی یہود و نصاریٰ کی سازش میں ان کا ایجنٹ قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ کب اور کہاں جا کر تھمتا ہے؟ کوئی کچھ نہیں کہ سکتا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ چودہری شجاعت حسین جیسے سمجھدار اور محب وطن انسان بھی کہہ رہے ہیں کہ محمود خان اچکزئی کی بات افسوسناک ہے۔

یہاں مجھے اسٹیبلشمنٹ کے حامی خاندان ’’قزلباش‘‘ کی بیگم افسر رضا قزلباش کی کہی بات بہت یاد آرہی ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے بابا جانی یعنی نوابزادہ مفظر علی خان قزلباش نے انہیں نصیحت کی تھی کہ ’’بیٹا ہم نے ہر حال میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہونا ہے ‘‘ بیگم افسر رضا قزلباش انگریز کابینہ اور ایوب خاں کی کابینہ میں اہم وزیر رہنے والے نوابزادہ مفظر علی خاں قزلباش کی ہونہار صاحبزادی ہیں۔ اور انہوں نے اسٹبشلمنٹ کے ساتھ ’’وفاداری‘‘ کے سبق کو دماغ سے نکال پھینکا اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے بے نظیر بھٹو کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور 1988 میں بننے والی بے نظیر کابینہ میں وزیر بھی بنائی گئیں۔ انہوں نے غلام مصطفی جتوئی کی بے نظیر بھٹو کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد میں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے سے ایک بار پھر ’’ناں‘‘ کر دی۔ مگر اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر حکومت کو ہٹانا تھا سو اس نے 6 اگست 1990 کو ہٹا دیا۔ اس وقت سے آج تک اسٹیبلشمنٹ نے بیگم افسر رضا قزلباش کی اس حکم عدولی کو معاف نہیں کیا۔ بیگم افسر رضا قزلزباش کی تو ایک مثال دی گئی ہے پاکستان میں بہت سارے خاندان ایسے موجود ہیں جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی مخالف سمت چلنا شروع کیا تو اسٹیبلشمنٹ نے انہیں حرف غلط کی مانند اپنے وفاداروں کی فہرست سے کھرچ دیا۔

محمود خان اچکزئی کی حب الوطنی کسی سے سرٹیفیکیٹ کی محتاج نہیں ہے وہ ہر اس پاکستانی سے کہیں زیادہ محب وطن ہیں جو خود کو سب سے زیادہ محب وطن سمجھتا ہے۔ پاکستان کی جمہوری حکومت کو اس بات کا نوٹس لینا چاہئیے کیونکہ ہم کب تک محب وطن قومی رہنماؤں کو غدار کہتے رہیں گے؟ ہم کب تک غداری کی فصل بوتے رہیں گے اور محب وطن لوگوں کو غدار کہہ کہہ کر پرایا بناتے رہیں گے؟ اگر محمود خان اچکزئی محب وطن نہیں ہے تو پھر اس پاکستان میں کوئی بھی محب وطن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments