اقتدار کی جلدی میں جیالوں کو نہ اکسائیے صاحب۔ احتساب ہولینے دیجیے


پاکستان تحریک انصاف سندھ کی لیڈرشپ گرم کھانے کے چکر میں کہیں منہ نہ جلوا بیٹھے۔ اوپر سے آلو کا جلا تالو لمبے عرصے تک احساس دلاتا ہے ہے کہ وقت سے پہلے اور اوقات سے زیادہ کی حرص و ہوس ہمیشہ رسوائی کا سبب بنتی ہے۔ ویسے بھی ایک رکابی سالن کے لیے پوری دیگ خراب کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ تھوڑا حوصلہ رکھیں، کارکردگی دکھائیں، وزیراعظم صاحب کو اپنے منشور پر عملدرآمد کروالینے دیں ہھر آپ کا وقت بھی آجائے گا۔ ویسے بھی تقریباً سبھی نظریاتی لوگوں کو کسی نہ کسی صورت وزارت مشارت مل ہی چکی ہے۔ جو دو چار رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ ٹھنڈا کرکے کھائیں۔

پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ پر سنگین نوعیت کے الزامات ہیں جن سے بچنا محال ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب سندھ کے غریب عوام کی فکر زردار بھٹووں کو ستانے لگی ہے۔

اس تمام صورتحال میں ڈیموکریٹک الائنس ایسی دو نشستوں والی علاقائی جماعتوں کی جلد بازی تو سمجھ آتی ہے لیکن پی ٹی آئی کے سندھ چیپٹر کو ایسی کسی ایکٹیویٹی کا حصہ نہی بننا چاہیے جو مرکز کے لیے بے چینی کا سبب بنے۔ حکومت بنے ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں کہ صوبے میں پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت کو غیر پارلیمانی طریقوں سے مسخ کرکے اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی جائے۔ ایسی تمام تجاویز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سینٹرل کمیٹی کو چاہیے کہ وہ سندھ چیپٹر کو باز رکھے اور احتساب کا عمل بخوبی منطقی انجام تک پہنچنے دیا جائے۔

پیپلز پارٹی کا جیالا جو کسی حد تک حسین لوائی اور انور مجید جیسے لوگوں کے لیے سڑکوں پر نکلنے سے گریزاں ہے، گورنر راج یا فارورڈ بلاک کی صورت اسے جواز مل جائے گا کہ ایجی ٹیشن پر اتر آئے۔ اگر ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے تو یون سمجھیے کہ یہ پی پی پی والوں کے لیے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے کے مترادف ہوگا۔ یہی اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت کی خواہش بھی ہے۔ وہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ حکومتیں ان کو بعد میں بھی مل جائیں گی لیکن اگر احتساب کی چکی کے پاٹوں بیچ پھنس گئے تو نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری والا حال ہوجانا ہے۔

یوں سمجھیے کہ پیپلز پارٹی کے جو ممبران اس وقت پی ٹی آئی کے ساتھ رابطے میں ہیں وہ ہوسکتا ہے اسی گریٹ گیم کاحصہ ہوں جس کے تانے بانے جوڑ توڑ کی سیاست کے ماہر گرو زرداری صاحب نے بنی ہو۔ وہ جانتے ہیں کہ سندھ میں پی ٹی آئی کی قیادت سیاسی طور پر نئی ہے اور ان میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا حوصلہ بھی قدرے کم ہے۔ اقتدار کی چکا چوند ہر وقت انہیں اپنی گھیرے میں لیے ہوئے ہے کہ باقی ملک کے تمام حصوں میں تحریک انصاف کے لوگ اقتدار میں ہیں، انہی بیچاروں کو اپوزیشن کے بینچوں پر بیٹھنا پڑ رہا ہے۔ یہ جوش سے نہی بلکہ ہوش سے کام لینے کا وقت ہے۔

بائیس سال کی طویل جدوجہد کا ثمر اس قوم کو ملنے لگا ہے۔ اس دوران اگر کسی کے بچپنے نے ناعاقبت اندیشی دکھائی تو کیے کرائے پہ پانی پھر جانا ہے۔ ایک بار پھر سندھ کارڈ اور مظلومیت کا ڈھونگ رچاکر انتشار پھیلانے اور مفاہمت پر بات نبٹانے کی کوشش کی جائے گی گی۔ اس سے بہتر ہے کہ سندھ میں ان ہاؤس تبدیلی لانے کی بجائے ایف آئی اے، نیب اور عدلیہ کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ اگر وزیر اعلی سندھ استعفی دیں یا نا اہل کردیے جائیں تو بھی ہارس ٹریڈنگ نہ کی جائے بلکہ جس کی اکثریت ہے اسے ہی حکومت بنانے دی جائے۔

یہی ایک طریقہ ہے جس سے نا صرف جمہوریت کو استحکام ملے گا بلکہ احتسابی عمل کی شفافیت پر عوامی رد عمل مثبت رہے گا۔ رہی بات سیاسی لوگوں کی تو جن کی غلط کاریوں سے پردہ اٹھے گا اور اپنا کیا سامنے آئے گا ان کی چیخیں تو نکلیں گی۔ اب وہ چیخیں مریخ پہ سنائی دیں یا لاڑکانے، نواب شاہ اور اچھرہ کے بازاروں میں، ان کی آہ و فغاں سے جمہوریت کا کچھ نقصان نہی ہونا اور عوام تو پہلے ہی سب جان چکے ہیں۔ اب تو جیالے اور متوالے بھی منتظر ہیں کہ فیصلہ آئے تاکہ روز روز کی کھینچا تانی اور دھینگا مشتی سے جان چھو ٹے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).